آخر ہم سمندر کو ایک مرد کے صیغے سے کیوں جانتے ہیں؟ 40

آخر ہم سمندر کو ایک مرد کے صیغے سے کیوں جانتے ہیں؟

نمیرہ محسن : پی این پی نیوز ایچ ڈی

انور دور خلاوں میں کھو کر بولا۔ اس کی آنکھوں کی عدسے پھیل رہے تھے۔ وہ کچھ خاص دیکھ پا رہا تھا جو میں نہیں سمجھ رہا تھا۔
“تو کیا مرد صابر اور گہرا نہیں ہوتا؟ نبوت پیغمبروں کو ملی اور ان کے صبر کے اعجاز میں۔”
” میں خدائی فیصلوں پر انگلی کیسے اٹھا سکتا ہوں؟ کیا تمہیں لگتا ہے کہ خاکی کی یہ اوقات ہو سکتی ہے؟ انور کچھ وقفے سے بولا۔
“نہیں ، ہرگز نہیں۔ مگر تم سمندر کی جنس پر اعتراض کر رہے ہو۔” فاروق تڑپ کر بولا۔ اس کو یوں لگا کہ اس کے دوست نے اس کی مردانگی پر کھینچ کر ضرب لگائی ہو۔ اور اس کی سب تلواریں اور ڈھالیں اس کے آہنی خود کے ساتھ زمیں بوس ہو گئی ہوں۔
” میں نے کل اپنی ماں کی آنکھوں کو غور سے دیکھا۔ وہاں دو آسمان سمٹے تھے۔ ان دو پتلیوں میں نیلم کے سمندر تھے۔ جن میں دو کہکشائیں تھیں۔ کچھ گدلائی ہوئیں مگر بہت جادوئی، ہزار راز سمیٹے ۔ اگر میں ان کو دو کائناتیں کہہ دوں تو قریب ہے کہ ان کو شاید بیان کر پاوں۔ ہم ایک سمندر کو دیکھنے کے لیے مرتے ہیں اور وہاں ان آنکھوں میں مجھے دو بحیرے اور اتنی ہی کائناتیں ملیں۔
سمندر موتی اگلتا ہے۔ میری ماں نے بھی ساری عمر آنسوؤں کے موتی بنائے ہیں۔ اس کا سینہ کئی بھید سنبھالے ہوئے ہے۔ میرے بہت سے راز اور ڈھیروں کمزوریاں اس نحیف سینے میں دفن ہیں۔ میں جانتا ہوں اگر ان صندوقوں کو کوئی کھولے گا تو وہ میرا رب ہی ہوگا۔
اسکی بڑھتی عمر نے اس کو مزید حسین بنا دیا ہے۔ کل باغ میں جب میں اس کے حسین چہرے کو تکتا تھا تو مجھے احساس ہوا کہ مکمل حسن کس کو کہتے ہیں۔ ” انور نے مڑ کر فاروق کو دیکھا جو اس کو حیرت سے تک رہا تھا۔
” میرے پیارے دوست! کیا تم نے کبھی گلاب کو کھلتے دیکھا ہے؟ جیسے جیسے کھلتا ہے اس کی پتی پتی اپنے حصے کے درد کو سہار کر اک کرب سے کھلتی ہے جو ہر پنکھڑی کے کناروں پر اپنے جبر کی داستان چھوڑ جاتاہے۔ اور گلاب مکمل ہو جاتا ہے۔اماں کے چہرے کی جھریاں وہی پنکھڑیاں لگ رہی تھیں۔ ہر جھری میں سے اک نور کی کرن پھوٹ رہی تھی۔ میں اماں کا داس اس کے چرنوں سے لگا اس برسات میں بھیگ رہا تھا۔
میرے پیارے! سمندر تو ماں ہے۔ اک عورت کا بنیادی عنصر مامتا ہے جس کی وجہ سے وہ والد، بھائی، شوہر اور بیٹے پر سب لٹا دیتی ہے۔ ان کی خامیاں اپنے سینے میں خزانوں سے بھرے صندوق بنا کر اتار لیتی ہے۔
جو ماں کے پاس آتا ہے اس کا پیٹ، نظر، جیب سب بھر کر لوٹاتی ہے اور بدلے میں صرف انتظار کرتی ہے۔ کبھی دروازے سے لگ کر اور کبھی جائے نماز پر رو کر۔”
فاروق جیسے کسی طلسم میں جکڑا ہوا تھا۔ اس نے تو کبھی اماں کو ایسے دیکھا ہی نہ تھا۔ بس اک پرانی سی گدڑی یا صافے سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ جب چاہا ڈانٹ پلادی۔ جب چاہا سنوار کر خوش کردیا۔ کیا سوچتی ہے، کیا محسوس کرتی ہے، وہ بڑھیا تو اس درجے پر کبھی آئی ہی نہیں تھی۔
“سنو انور!” اس نے رندھے ہوئے گلے سے بولنا چاہا۔
جاری ہے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں