جب مارشل لاء لگتے ہیں سب ہتھیار پھینک دیتے ہیں،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ 187

جب مارشل لاء لگتے ہیں سب ہتھیار پھینک دیتے ہیں،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

سٹاف رپورٹ (تازہ اخبار،پی این پی نیوز ایچ ڈی)

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس میں کہاہے کہ اس قانون کا اثربالخصوص چیف جسٹس اور ان کے 2سینئر ججز پر ہوتا ہے.
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس کی سماعت ہوئی،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ نے سماعت کی، چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ اس قانون کا اثربالخصوص چیف جسٹس اور ان کے 2سینئر ججز پر ہوتا ہے،سوال ہے کہ چیف جسٹس کے اختیارات کو کم نہیں محدود کیا جارہاہے،چیف جسٹس کے اختیارات کو دیگر ججز کے ساتھ بانٹا جارہا ہے، اس قانون کا اطلاق آئندہ کے چیف جسٹس پر بھی ہوگا.
چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ بہتر ہے تمام ساتھی اس کیس کو سنیں، کوشش ہوگی آج کیس کااختتام کرلیں،ہمارے پاس اور بھی بہت سے مقدمات ہیں، شنوائی کا مطلب یہ نہیں کہ دونوں بحث کرتے جائیں،ایک وقت میں ایک شخص آکر بات کرے،چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ کیس کرنے کا شوق ہے لیکن پٹیشنر عدالت میں نہیں ہے،مختصر بات کرنی ہے تو کریں،کوئی مزید بات کرنے چاہیں تو تحریری صورت میں دیدیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ ہمارے پاس کافی مقدمے ہیں جو کہ بڑھتے جارہے ہیں،اب کوئی پورا نہ پڑھے ہم پورا ایکٹ پڑھ چکے ہیں۔

درخواست گزار نیاز اللہ نیازی کے وکیل اکرام چودھری نے دلائل دیتے ہوئے کہاکہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کو مخصوص شخص کیلئے بنایاگیا،اس قانون کو خاص وجہ سے بنایا گیا ہے،ایکٹ کے سیکشن 3میں 184تین کے کیسز کیلئے ججز کمیٹی بنائی گئی ہے ،سیکشن 3سے چیف جسٹس کے آئینی اختیار پر پارلیمنٹ نے تجاوز کیا،سیکشن 3آئین سے متصادم ہے.
وکیل درخواست گزار نے کہاکہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کا سیکشن 5نظرثانی میں اپیل سے متعلق ہے،آرٹیکل 184تین میں ترمیم کیلئے دو تہائی اکثریت درکارتھی،پارلیمنٹ سادہ اکثریت سے آئین کے آرٹیکل نہیں بدل سکتی،لٰہذا یہ شق بھی آئین سے متصادم ہے۔

وکیل درخواست گزار نے کہاکہ ایکٹ سے پارلیمنٹ نے عدلیہ کی آزادی کو بلڈوز کیا،ایکٹ کے ذریعے پارلیمنٹ نے اپنے دائرے سے باہر نکلنے کی کوشش کی ہے،جب یہ ایکٹ منظور ہوا اس وقت کی پارلیمنٹ کی صورتحال دیکھنا بھی ضروری ہے،پارلیمنٹ میں کی گئی باتوں کو لائیو رپورٹ بھی کیا گیا.
چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ کیا آپ اپنے دلائل اخباری خبروں کی بنیاد پر دیں گے،وکیل اکرام چودھری نے کہاکہ ہمارے پاس پارلیمنٹ کی کارروائی کا ریکارڈ نہیں ہے،چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ آپ نے سپیکر کو تحریری کارروائی کے ریکارڈ کیلئے درخواست کی؟پارلیمنٹ اور عدلیہ الگ الگ آئینی ادارہ ہیں،اگر آپ نے اپنی معلومات تک رسائی کے تحت کارروائی کی درخواست نہیں کی تو یہ دلیل مت دیں،آپ نے خود سپیکر کو خط نہیں لکھا اور چاہتے ہیں پوری سپریم کورٹ بیٹھ کر بے بنیاد دلیل سنے،وکیل اکرام چودھری نے کہاکہ میں پوری قوم کی طرف سے بات کررہا ہے.
چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ وہ خبریں نہ پڑھیں جن کا اس کیس سے کوئی تعلق نہیں،عدالت نے سیاسی بحث کیلئے استعمال نہ کریں،میڈیا موجود ہے وہاں کر سیاست کریں،قانونی دلائل دیجیے، یہ دلائل دیں کہ پارلیمنٹ نے کیسے عدلیہ کا حق سلب کیا،کچھ لوگو ں کا بھی خیال ہے اس قانون سے سپریم کورٹ اور پارلیمان آمنے سامنے آگئے،میں لفظ جنگ استعمال نہیں کروں گا، ہماری پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار کے نمائندوں سے میٹنگ ہوئی،میٹنگ میں سینئر جج سردار طارق مسعود بھی موجود تھے،وکلا نے شکایت کی کہ ان کی بات نہیں سنی جاتی،کہا گیا جب وکلا بات کررہے ہوں انہیں بات مکمل کرنے دی جائے.
چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر اب قانون بن چکا ہے،حسبہ بل کبھی قانون بنا ہی نہیں تھا،پارلیمنٹ قانون سازی کرسکتا تھا یا نہیں اس بحث میں نہیں جانا چاہئے،سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر آئین سے متصادم ہے یا نہیں یہ بتائیں۔

وکیل اکرام چودھری نے کہاکہ سپریم کورٹ کے پاس ایکٹ کالعدم قرار دینے کا مکمل اختیار ہے،راولپنڈی بار کیس میں آئینی ترمیم کو دیکھا گیا تھا،چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ 21ویں آئینی ترمیم میں عدالت نے قراردیا سپریم کورٹ آئینی ترمیم کا بھی جائزہ لے سکتی ہے، عدالت جب آئینی ترمیم بھی دیکھ سکتی ہے تو بات ختم ہو گئی،آپ کی دلیل ہے کہ آئینی ترمیم سے یہ قانون بن جائے تو ٹھیک ہے، چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ جب آپ عدالت کی آزادی بات کرتے ہیں تو کیا یہ آزادی ازخود نایاب چیز ہے یا لوگوں کیلئے ہوتی ہے؟عدالت کی آزادی صرف اس کے اپنے لئے ہے کہ اس کا ہر صورت دفاع کرنا ہے؟عدالت کی آزادی لوگوں کیلئے نہیں ہے ؟اس پر روشنی ڈالیں.
چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ اگر کل پارلیمنٹ قانون بناتی ہے کہ بیواؤں کے کیسز کو ترجیح دیں،کیا اس قانون سازی سے عدلیہ کی آزادی متاثر ہو گی؟قانون سازی انصاف دینے کا راستہ ہموار اور دشوار کررہی ہے تو یہ بتائیں،کیا ہماری آزادی خود ہی کافی ہے یا اس کا تعلق کسی اور سے بھی ہے؟جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ یہ ساری باتیں ہو چکیں، آپ صرف اپنی درخواست پر دلائل دیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے وکیل درخواست گزار سے کہا کہ جس کتاب کا آپ حوالہ دے رہے ہیں یہ پہلے مارشل لا کے بعد لکھی گئی،سپریم کورٹ نے اس مارشل لا کی توثیق کی،کیا یہ کتاب مارشل لا کے اثر میں لکھی گئی تھی؟

جسٹس منیب اختر نے کہاکہ کتاب مئی 1958میں لکھی گئی اور مارشل لا اکتوبر 1958میں لگا، کتاب میں جوڈیشری ڈپارٹمنٹ کا لفظ امریکی قانون کا حوالہ ہے،لفظ کا مطلب عدلیہ کو محکمہ کہنا نہیں، ہر ملک کی اپنی اصطلاحات ہوتی ہے،

چیف جسٹس نے درخواست گزار کے وکیل اکرام چودھری کی تعریف کرتے ہوئے کہاکہ آپ نے بہت محنت کی ہے چودھری صاحب،عدلیہ حکومت کا ذیلی محکمہ نہیں ہے،جسٹس منیب اختر نے کہاکہ یہاں سوال قانون سازی کے اختیار کا ہے،آئین میں ٹیکنیکل اصطلاح ہے مقننہ قانون سازی کے اختیار سے تجاوز کرے تو یہ فراڈ ہے.پارلیمنٹ کل بھلے کہے سپریم کورٹ اس قانون کو ترجیح دے یا اس کو،سوال یہ ہے کہ کیا پارلیمنٹ اتنی باریکی سے سپریم کورٹ کو ریگولیٹ کر سکتی ہے؟ وکیل اکرام چودھری نے کہاکہ عوام کی منشا آئین کی بنیاد ہے،جسٹس محمد علی مظہر نے کہاکہ اس ملک کی اصطلاح اور اس ملک کی اصطلاح کو چھوڑیں،اپنے آئین سے ثابت کردیں کہ یہ ایکٹ کیسے آئین کے خلاف ہے،چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ ہمیں اس کیس کو آج کنارے لگانا ہے،45منٹ سے آپ کو سن رہے ہیں، اب دلائل ختم کیجیے،سننا تو آپ کوپورا دن چاہتے ہیں لیکن یہ ممکن نہیں،کوئی دلیل رہ جائے تو تحریری جمع کرائی جا سکتی ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ مظہر صاحب کے سوال پر بتا دیں کہ کون سی آئینی شق متاثر ہوئی؟جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ 2 سوالات اٹھتے ہیں،ایک سوال یہ ہے کیا پارلیمنٹ سپریم کورٹ کے اندرونی معاملات سے متعلق قانون سازی کی مجاز ہے،پھر بتائیں کہ ایکٹ کی کون سی دفعہ کس آئینی شق سے متصادم ہے? ایک سوال اہلیت اور دوسرا تضاد کا ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ آپ جتنا باریکی میں جائیں گے زیادہ وقت لگے گا،اس کیس کو آج کے بعد نہیں چلنا،جتنا وقت آپ لیں گے باقی وکلاء کو کم ملے گا۔وکیل اکرام چودھری نے کہاکہ آرٹیکل 8کہتا ہے ایمرجنسی میں آئینی شقیں معطل کی جاسکتی ہیں۔جسٹس محمد علی مظہر نے کہاکہ آئینی شق کا کیا تعلق ہے جب قانون بن چکا۔جسٹس سردار طارق نے کہاکہ پارلیمنٹ قانون نہیں بتا سکتا، پتہ نہیں کیوں؟ کوئی حوالہ تو دے دیں۔وکیل اکرام چودھری نے کہاکہ میرے بنیادی حقوق کا تحفظ ضروری ہے،باقی دلائل تحریری طور پر جمع کرا دوں گا۔سٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا آپ ابتک درخواست قابل سماعت ہونے پر دلائل دے رہے ہیں؟صرف یہ بتا دیں کہ کون کون سی دفعات سے آپ متفق ہیں یا مخالف ہیں،جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ اس ایکٹ کے تحت عوام کا انصاف تک رسائی کا بنیادی حق کیسے متاثر ہوا؟وکیل حسن عرفان نے کہاکہ چیف جسٹس اور ججز کمیٹی کو صوابدیدی اختیار مل گیا کہ میرے حقوق کی خلاف ورزی پر نوٹس لیں یا نہیں،جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا جب ازخودنوٹس کااختیار صرف چیف جسٹس کے پاس تھا تو انصاف تک رسائی متاثر نہیں ہوتی تھی؟چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ ایکٹ کے سیکشن 3کے تحت کیا کمیٹی طے کریگی کہ ازخودنوٹس لینا ہے یا نہیں؟

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ انصاف تک رسائی کیلئے عدالت کو آزاد ہونا چاہئے،پہلے بتائیں ایکٹ سے انصاف تک رسائی کا بنیادی حق کیسے متاثر ہوتا ہے،درخواستوں کے قابل سماعت ہونے سے ہم بہت آگے نکل چکے ہیں،ایک جانب کی دلیل ہے بنیادی حقوق متاثر ہو رہے ہیں، دوسری جانب کا ہے نہیں ہو رہے ۔جسٹس عائشہ ملک نے کہاکہ میرا سوال پہلے والے سوال سے پوری طرح مطابقت رکھتا ہے،چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ اگر میں اپنے ساتھیوں سے درخواست کروں کہ پہلے وکیل کو سوالات کا جواب دینے دیں.جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ انصاف تک رسائی کیلئے بنیادی شرط آزاد عدلیہ بھی ہے،جسٹس عائشہ ملک نے کہاکہ قانون کا مقصد انصاف تک رسائی ہے تو فل کورٹ کیخلاف اپیل کا حق کیوں نہیں حاصل ہوگا، کیا فل کورٹ کیخلاف اپیل کا حق نہ ہونا انصاف تک رسائی کے منافی نہیں،حسن عرفان نے کہاکہ قانون سازوں کے ذہن میں شاید یہ سوال کبھی آیا ہی نہیں تھا،جسٹس عائشہ ملک نے کہاکہ اپیل کا حق برقرار رکھنے کا ایک مطلب یہ ہے فل کورٹ یا لارجر بنچ کا راستہ بلاک ہو گیا،وکیل حسن عرفان نے کہاکہ صدر، وزیراعظم اور ججز آئین کا تحفظ کرنے کا حلف لیتے ہیں،چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ ججز کا حلف پڑھ کر سنائیں،وکیل حسن عرفان نے ججز کا حلف پڑھ کر سنایا۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ جب مارشل لا ءلگتے ہیں سب ہتھیار پھینک دیتے ہیں،اس کمرے میں بہت سی تصاویر لگی ہیں جو مارشل لاء آنے پر حلف بھول جاتے ہیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ پارلیمنٹ قانون سازی کی اہلیت رکھتی ہے یا نہیں؟وکیل حسن عرفان نے کہا کہ پارلیمنٹ کے پاس یہ قانون سازی کرنے کااختیار نہیں تھا،پارلیمان سپریم ضرور ہے لیکن آئین کے بھی تابع ہے۔چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ حلف میں آئین کے ساتھ قانون کا بھی ذکر ہے اسے مدنظر رکھیں،مارشل لا ءلگے تو حلف بھلا دیا جاتا ہے،پارلیمان کچھ کرے تو سب کو حلف یاد آ جاتا ہے، مارشل لا ءکیخلاف بھی تب درخواستیں لایا کریں، وہاں کیوں نہیں آتے؟

چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ پارلیمنٹ نے کہاکہ سپریم کورٹ کااختیار بڑھا دیا گیا،کیا آپ کا مؤقف ہے اپیل کا حق نہ ہو، سپریم کورٹ جو فیصلہ کرے وہ حتمی ہو؟چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ پارلیمنٹ کہتی ہے انہوں نے ٹھیک قانون سازی کی۔

دوران سماعت چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ نظرثانی میں اپیل کا حق ملنے سے آپ کو کیا تکلیف ہے؟وکیل حسن عرفان نے کہاکہ میرے قانون کی رسائی کا حق متاثر ہو گا، کل کو سماجی و معاشی اثرات ہونگے ،چیف جسٹس نے کہاکہ اس عدالت نے کئی بار مارشل لا کی توثیق کی ہے،جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ انصاف تک رسائی کے حق کو پارلیمنٹ کیوں نہیں بدل سکتی؟جسٹس محمد علی مظہر نے کہاکہ توہین عدالت کے خلاف بھی کیا اپیل کا حق نہیں ہونا چاہئے تھا؟جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ سوال یہ ہے اپیل کاحق دینا اختیار کس کا ہے،جب آئین نے اپیل کا حق نہیں دیا تو یہ آئینی منشا نہیں تھی،اگر یہ منشا اب ہے اپیل کا حق دیا جائے تو اس کا واحد حل آئینی ترمیم کے ذریعے ہے،ایسے تو پارلیمنٹ قانون کے ذریعے ایک کے بجائے 4اپیلوں کا حق دیدے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہاکہ مفروضوں کی نہیں حقیقت کی زبان جانتا ہوں،مولوی تمیز الدین سے شروع کریں یا نصرت بھٹو سے،انہوں نے کہا آئین کے ساتھ جو کھلواڑ کرنا چاہو کرو، پاکستان کے ساتھ کھلواڑ ہونے نہیں دے سکتے۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ پارلیمنٹ کی قدر کرنا چاہئے،کھل کر بات کیجیے،ہمارے صدر بیٹھے ہیں، یہ کہتے ہیں فلاں ڈاکٹرئن ہیں کیس نہیں لگتا،فردواحد نے اس ملک کی تباہی کی ہے،فردواحد میں چاہے مارشل لا ہو یا کوئی بھی،ہمیں آپس میں فیصلہ کرنا ہے ، ججز سے آپ کو کیا مسئلہ ہے،ایک چیف جسٹس نے فیصلہ کیا، وہ ٹھیک ہے زیادہ کریں تو غلط ہے،یہ قانون ایک شخص کیلئے کیسے ہے، یہ بھی سمجھ نہیں آیا،سب بس پارلیمنٹ پر حملہ کررہے ہیں،یہ دیکھیں قانون عوام کیلئے بہتر ہے یا نہیں،وکیل حسن عرفان نے کہاکہ آ پ 15ججز بیٹھے ہیں جو فیصلہ کریں کرسکتے ہیں۔

جسٹس منیب اختر نے کہاکہ جب پہلی بار اس عدالت نے مارشل لا کی توثیق کی تو عاصمہ جیلانی کیس میں کالعدم قرار دیا گیا،کیا عاصمہ جیلانی کیس میں وہ اپیل تھی جس سے مارشل لا کی توثیق کالعدم ہوئی؟چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ اس قانون کی سمت صحیح ہے یا نہیں؟پاکستان کی تاریخ کو چھوڑ کر دیکھ سکتے ہیں اس قانون کو؟چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ اعجاز صاحب نے دو بنیادی سوال کئے ان پر فوکس کریں، وکیل حسن عرفان نے کہاکہ میرے مطابق پارلیمان ایسی قانون سازی نہیں کرسکتی،آرٹیکل 191کے تحت سپریم کورٹ رولز خود بناتی ہے،جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آرٹیکل 191میں آئین کے ساتھ قانون کا بھی ذکر ہے،جسٹس شاہد وحید نے استفسار کیا کہ کیا آرٹیکل 191میں استعمال لفظ قانون کا مطلب پارلیمان کا اختیار ہے؟جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ سپریم کورٹ رولز خود بناسکتی ہے جب آئین اور اس وقت کے رائج قانون میں پابندی نہ ہو،حسن عرفان نے کہاکہ آئین کی ٹکڑوں میں تشریح کی گئی تو کسی نتیجہ پر نہیں پہنچ سکیں گے،جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر رولز بنا سکتی ہے لیکن آئین و قانون کے تحت،آئین و قانون تو پارلیمنٹ بناتی ہے،سپریم کورٹ آئین و قانون سے باہر کے ضوابط تو نہیں بنا سکتی،وکیل حسن عرفان نے کہاکہ یہ تو آپ ججز کی اکثریت کو فیصلہ کرنا ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ تو ہم فیصلہ کرلیں آپ بیٹھ جائیں،اصلاح کیلئے غلطی تسلیم کرنا ضروری ہے،ایک دن سپریم کورٹ کسی فیصلے کو درست ، دوسرے دن غلط بھی کہہ سکتی ہے،آپ کہیں سپریم کورٹ نے غلط کیا تھا،یا پھر یہ کہیں گے کہ سپریم کورٹ جنگل کا بادشاہ ہے جو چاہے کرے،ایسے تو ملک آئین پر نہیں ججز کے فیصلوں کے ذریعے بنائے قوانین پر چلے گا۔ جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ سبجیکٹ ٹو لا کا کیا مطلب ہوتا ہے؟وکیل حسن عرفان نے کہاکہ سبجیکٹ ٹو لا کا مطلب آئین و قانون کی مطابقت کرنا ہے،جسٹس محمد علی مظہر نے کہاکہ تو قانون بنانے پر پابندی نہیں ہے اسے آئین کے تابع ہونا چاہئے،سپریم کورٹ آئین کی تخلیق ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ آرٹیکل 191کا اہم آئینی سوال ہمارے سامنے ہے،کیا آرٹیکل 191پارلیمنٹ کو سپریم کورٹ سے متعلق قانون سازی کا اہل بناتا ہے؟جواب دے دیں پلیز اس کا،آرٹیکل 191میں سبجیکٹ ٹو لا کا کیا مطلب ہے یہ بتا دیجیے،وکیل حسن عرفان نے کہاکہ آرٹیکل 191میں تو ابہام ہے یہ آپ نے فیصلہ کرناہے،جسٹس منیب اختر نے کہاکہ پارلیمنٹ کی قانون سازی سے بنا تضاد کیسے حل ہو گا؟وکیل حسن عرفان نے کہاکہ یہ تضاد حل کرنا تو مشکل ہے،جسٹس منیب اختر نے کہاکہ قانون سازی سے سپریم کورٹ رولز کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ مصنوعی ذہانت، خلا، سماجی رابطوں سے متعلق پارلیمنٹ قانون سازی نہیں کر سکتا،یہ فیڈرل لیجسلیٹیولسٹ میں نہیں ہے،پاکستانی خلائی مشن شروع نہیں کر سکتا کیونکہ اس کا تذکرہ فیڈرل لیجسلیٹیولسٹ میں نہیں ہے،کسی کو خلائی پروگرام کرنا ہے تو کیا وہ کسی معاہدے کے تحت ہوگا؟خلائی مشن شروع کرنے کیلئے پارلیمنٹ کونسا اختیار استعمال کرے گا، کسی کو خلائی پروگرام کرنا ہے تو کیا وہ کسی معاہدے کے تحت ہو گا،یا تو کہیں کہ فیڈرل لیجسلیٹیولسٹ سے باہر نہیں جانا۔

پی ٹی آئی وکیل عزیز بھنڈاری نے کہاکہ میں خلائی مشن سے متعلق کیس تیار تو کرکے نہیں آیا،2سماعتوں سے سن رہا ہوں ،آپ آج مجھ سن لیں،چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ میں معذرت خواہ ہوں آپ اپنے دلائل جاری رکھیں،جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ آرٹیکل 191کے علاوہ آپ کا مدعا یہ ہے پارلیمنٹ بنیادی حقوق سے متعلق سادہ قانون سازی نہیں کرسکتی،وکیل عزیز بھنڈاری نے کہاکہ سبجیکٹ تو لا کا مطلب ہے آرٹیکل 191کے تحت بننے والے قوانین آئینی شقوں سے مطابقت رکھنے چاہئیں،جسٹس منیب اختر نے کہاکہ سپریم کورٹ کے 1956کے رولز کو 1973کے آئین میں ختم نہیں کیا گیا تھا۔

چیف جسٹس نے وکیل حسن عرفان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہاکہ آپ ہاں نا کے سوا کچھ نہیں کہہ رہے،جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ دنیا میں پارلیمنٹ کے قانون سے بالاکوئی رولز ہو سکتے ہیں؟ دنیا کی کوئی مثال ہو تو دے دیجیے گا،جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ سپریم کورٹ رولز آرٹیکل 191کے تحت غیرآئینی ہو نہیں سکتے،وکیل حسن عرفان نے کہاکہ اگر پارلیمنٹ پر قانون سازی کی پابندی نہیں ہے تو اجازت بھی نہیں ہے،چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ آپ صرف ادھر ادھر کی باتیں کر رہے ہیں، بار بار بات نہ دہرائیں،یہ ایکٹ اپیل کا حق بھی دے رہا ہے اس پر اپنی رائے دیجیے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ فیڈرل لیجسلیٹیولسٹ کی اینٹری 55دیکھ لیں،عدلیہ کے اختیارات کو اینٹری 55سے بڑھایا گیا یا کم کیا گیا؟جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ آرٹیکل 184تین کے تحت اختیار پہلے سے سپریم کورٹ کے پاس ہے، پارلیمنٹ نےاس اختیار کو بڑھایا؟جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ اگر آئین ساز سمجھتے کہ آرٹیکل 184تھری میں اپیل ہونی چاہئے تو آرٹیکل 185میں شامل کر دیتے،یہ کہنا کہ سپریم کورٹ کا اختیار لیجسلیٹیواینٹری کے ذریعے بڑھایا جا سکتا ہے کیسے ممکن ہے ۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا اگر ایسا ہے تو مسابقتی کمیشن کے قانون میں اپیل کا حق کیسے دے دیاگیا تھا؟

تحریک انصاف کے وکیل عزیر بھنڈاری نے کہاکہ مجھ ہدایات ہیں کہ درخواست گزاروں کے موقف کی تائید کرنی ہے،وکیل عزیر بھنڈاری نے کہا کہ آرٹیکل 191پارلیمنٹ کو قانون سازی کرنے کا اہل نہیں بناتا،آرٹیکل 142کہتاہے پارلیمنٹ کے پاس قانون سازی کا مکمل اختیار ہے،آرٹیکل 142 کے مطابق پارلیمنٹ فیڈرل لیجسلیٹیولسٹ کے اندر اینٹریز پر قانون سازی کر سکتا ہے،چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ کیا آپ کہہ رہے ہیں پارلیمنٹ فیڈرل لیجسلیٹیولسٹ میں درج نکات سے باہر قانون سازی نہیں کر سکتی،چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ سپریم کورٹ کا آرٹیکل 184/3کا اختیار غیرمعمولی ہے،آرٹیکل 184/3کا اختیار کسی اور ملک میں نہیں،اگر سپریم کورٹ کو غیرمعمولی اختیار دیا جا سکتا ہے تو کیاواپس نہیں ہو سکتا،پہلے بھی پارلیمنٹ نے سپریم کورٹ کو اختیارات دیئے، اب اسے بدل رہے ہیں تو کیا مسئلہ ہے،کیا زیادہ دماغ ملکر سوچیں تو بہتر ہوگا یا ایک چیف جسٹس فیصلے کرے تو بہتر ہوگا؟موجودہ ایکٹ سے چیف جسٹس کے اختیارات کیسے کم ہورہے ہیں یہ سمجھائیں،جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ آرٹیکل 184/3کا اختیار پہلے سے ہے اس میں صرف ایک اپیل کا حق دیا گیا ہے،جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ اپیل کا حق ایک بنیادی حق ہے جس کو باقاعدہ قانون سازی سے دیا جانا چاہئے،عام قانونسازی سے یہ قانون سازی کا حق نہیں دیا جاسکتا،کیا اس سے پہلے پارلیمنٹ اکثریت سے ترمیم نہیں کر سکتی تھی؟اس وقت پر یہ قانون سازی کرنا کیوں ضروری تھی؟

جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ اس سوال کو ماضی کے ساتھ جوڑ کر دیکھا جا سکتا ہے،چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ میں نہیں محسوس کررہاہم سے کوئی اختیارات لے لئے گئے ہیں،عزیر بھنڈاری نے کہاکہ بطور وکیل سپریم کورٹ کے فیصلوں کا پابند ہوں،چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ آپ آئین اور قانون کے پابند ہیں عدالتی فیصلے بعد میں آتےہیں،، میں نے حلف آئین و قانوں کے مطابق کام کا لیا ہے عدالتی فصلوں کے مطابق نہیں،چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ آئین نے سپریم کورٹ کو 184تین کااختیار دیا،یہ بتائیں اس قانون کے تحت یہ اختیار کم ہوا یا بڑھا،چیف جسٹس کا اختیار چلیں کہہ لیں کم ہو رہا ہے ، کیا سپریم کورٹ کا اختیار نہیں بن رہا،پہلے آئین پھر قانون اور پھر نظریں آئیں گی،ججوں نے آئین اور قانون کا تحفظ کرنے کا حلف لیا ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے پی ٹی آئی وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہاکہ آپ ایک سیاسی جماعت کی نمائندگی کررہے ہیں،سیاسی جماعت برابر میں پارلیمنٹ میں یہ خوبصورت بحث نہیں کر سکتی تھی؟وکیل عزیر بھنڈاری نے کہاکہ میں اپنی جماعت کے سیاسی فیصلوں کا ذمے دار نہیں ہوں،چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ آپ بالکل ذمے دار ہیں، آپ نےہمارے سامنے کہا اس پارٹی کا وکیل ہوں،آرٹیکل 184/3میں اپیل کا حق ملنے سے تحریک انصاف کو کیا مسئلہ ہے؟پی ٹی آئی نے اپنے موقف پارلیمان میں کیوں نہیں اٹھایا۔

وکیل عزیر بھنڈاری نے کہاکہ کسی سیاسی فیصلے کا دفاع نہیں کروں گا، چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے کہاکہ آپ سیاسی جماعت کے وکیل ہیں تو جواب بھی دینا ہوگا، عزیر بھنڈاری نے کہاکہ تحریک انصاف کے ہر اقدام کا ذمے دار نہیں ہوں،اچھا کام بھی وہی ادارہ کرسکتا ہے جو بااختیار ہو، جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ کیا پارلیمان قانون سازی کیلئے اچھا ادارہ نہیں ہے،عزیر بھنڈاری نے کہاکہ پارلیمان آئین کے مطابق قانون سازی کرے تو ہی ٹھیک ہوگا، چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ اگر اپیل کا حق دے دیا گیا ہے تو کیا قیامت آگئی،جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ آپ کے دلائل مان لیں تو مسابقتی کمیشن ایکٹ میں اپیل کا حق بھی غیرآئینی ہے،عزیر بھنڈاری نے کہاکہ جو قانون عدالت میں زیربحث نہیں اس پر رائے نہیں دوں گا، مسابقتی کمیشن کا کیس سپریم کورٹ میں زیرالتوا ہے،چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ کیا اپیل دینا غلط ہے؟سنگین غداری میں بھی متاثرہ فریق اپیل کرے گا۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ کیا سپریم کورٹ نے جب بھی 184/3کا استعمال کیا تو کیا ٹھیک استعمال ہوا؟پارلیمنٹ نے سمجھا اور دیکھا کہ آرٹیکل 184/3کا غلط استعمال ہوا اورانہوں نے قانون سازی کی، میں اگر کہتا ہوں عزیر بھنڈاری ہمیشہ وقتضائع کرتا ہے،میں عزیر بھنڈاری کو عدالت پیش ہونے سے روک دیتا ہوں تو آپ کیا کریں گے،اگر چیف جسٹس نے ایک فیصلہ کرلیا تو مطلب اب کچھ بھی نہیں ہوسکتا۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ ازخودنوٹس کے غلط استعمال پر پارلیمنٹ نے اپیل کا حق دیا ہے،عزیر بھنڈاری نے کہاپوری امید ہے آپ میرے ساتھ ایسا نہیں کریں گے،چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ ایک مثال دے دیں کہ دنیا میں کسی عدالت میں سزا کے خلاف اپیل کا حق نہیں ہے،وکیل عزیر بھنڈاری نے کہا کہ باہر دنیا میں جانے کی کیا ضرورت ہے اپنے ملک کی مثال دیکھ لیں، چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ امریکا اورہماری عدالت میں بنیادی فرق ہے کہ وہاں فل کورٹ بیٹھتا ہے،امریکا میں تو غلامی تھی، خواتین کو ووٹ کاک حق برصغیرکے بعد ملا، امریکا سے اتنے متاثر کیوں ہیں؟جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ امریکا میں تو ازخودنوٹس بھی نہیں ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں