کیا ہی عجب ہو اگر
یہ کھلا نیلا آکاش
لب کھول دے
کتنے حسیں چہرے
کتنی ریشمی زلفیں
کیسے گلاب ہونٹ
اور
چند معصوم دل
جن کی آنکھوں سے دنیا مسکراتی تھی
یوں ہی چلے گئے
لب سیے
بانہوں کو سینے سے لپٹائے
اپنے اپنے غموں کو
دکھ کے تاروں میں پرو کر
رنج کی سوئی سے
گلاب جیسے الم
اک حزن کی گٹھڑی میں
باندھے
گہری نیند
اپنی اپنی
آرام گاہوں میں
دل سے لگائے
اپنی بانہوں کو سینے سے لپٹائے
سو رہے ہیں
دعا کرو کہ آکاش کے لب
سلے رہیں
ورنہ
کوئی آتش فشاں
روئے ارض پر
خاموش نہ بیٹھے گا
نمیرہ محسن
اپریل 2024
150