وہ جو چاہتے تھے
منظر سے ہٹانا
ہنسی ہماری
رخ سے مٹانا
چلو آج سب کو
رہا کردیا ہے
اپنی جاں کو خود سے جدا کردیا ہے
لحد کا پتہ بھی
نہ تم کو ملے گا
ہماری مٹی بھی نہ پاو گے تم
خفا ہم ہوئے اب مدتوں تک
مالک نے مجھ کو
میری قید تنہائی کا صلہ
ادا کردیا ہے
میرا دنیا میں رہنا
نہ تھا تم کو گوارا
میرا طرز تکلم
خنجر کی دھار
نشیمن بھی چھوڑا
تمہارے کہے پر
وطن سے منہ موڑا
تمہارے کہے پر
میں روتی رہی تھی
اپنے گھر کو یاد کر تی
دربدر سی
رونے کی باری
اب ہے تمہاری
ڈھونڈو نشاں اب
یا
کوئی قبرستاں اب
جا ویرانہ بسایا
میں نے دل ہے لگایا
سرزمین حرم پر
اب کے ملنا تو ہو گا
تم بھی گزارو
جو میں نے گزارا
ملنا تو ہو گا
سرزمین حشر پر
نمیرہ محسن
جنوری 2024
189