نمیرہ محسن 186

وہ جو چاہتے تھے

وہ جو چاہتے تھے
منظر سے ہٹانا
ہنسی ہماری
رخ سے مٹانا
چلو آج سب کو
رہا کردیا ہے
اپنی جاں کو خود سے جدا کردیا ہے
لحد کا پتہ بھی
نہ تم کو ملے گا
ہماری مٹی بھی نہ پاو گے تم
خفا ہم ہوئے اب مدتوں تک
مالک نے مجھ کو
میری قید تنہائی کا صلہ
ادا کردیا ہے
میرا دنیا میں رہنا
نہ تھا تم کو گوارا
میرا طرز تکلم
خنجر کی دھار
نشیمن بھی چھوڑا
تمہارے کہے پر
وطن سے منہ موڑا
تمہارے کہے پر
میں روتی رہی تھی
اپنے گھر کو یاد کر تی
دربدر سی
رونے کی باری
اب ہے تمہاری
ڈھونڈو نشاں اب
یا
کوئی قبرستاں اب
جا ویرانہ بسایا
میں نے دل ہے لگایا
سرزمین حرم پر
اب کے ملنا تو ہو گا
تم بھی گزارو
جو میں نے گزارا
ملنا تو ہو گا
سرزمین حشر پر
نمیرہ محسن
جنوری 2024

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں