مسیحائ کا انتظار 149

مسیحا کا انتظار

تحریر۔ جویریہ اسد پی این پی نیوز ایچ ڈی

‎جب بھی میں بطور کالم نگار کسی ادبی صنف یا کسی کتاب کے تجزیے کے بارے میں لکھنے کا ارادہ کرتی ہوں، کوئی بھیانک حادثہ یا کوئی تازہ ترین واقعہ میرے سامنے آکر کھڑا ہوجاتا ہے اور ایک ذمہ دار کالم نگار ہونے کی حیثیت سے مجھے مجبور کر دیتا ہے کہ میں اس مسئلے کو لوگوں کے سامنے پیش کروں۔ حال ہی میں ایک سانحہ کارساز ہوا، جہاں طاقت اور شراب کے نشے میں دھت ایک بااثر خاتون نتاشا نے موٹر سائیکل پر گزرتے ہوئے ایک باپ اور بیٹی کو ہلاک اور فٹ پاتھ پر کھڑے کچھ غریب لوگوں کو زخمی کر دیا۔

‎یہ واقعہ مجھے اس وقت کی یاد دلاتا ہے جب کراچی کے شہریوں نے ایک معمولی ڈاکو کو چوری کے جرم میں زندہ جلا دیا تھا، مگر اس خاتون کو رینجرز کی بھاری نفری میں حفاظت سے ایک ایئر کنڈیشنڈ کمرے میں لے جایا گیا، جہاں ان کی ملاقات ان کے وکیل سے کرائی گئی۔ وکیل نے بڑی آسانی سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہےکہ وہ ایک ذہنی مریضہ ہیں۔ ایک ایسی ذہنی مریضہ جو کئی اہم نجی عہدوں پر فائز ہیں اور اپنے شوہر کی کمپنی کو چلاتی ہیں۔
ان خاتون کو بے گناہ قرار دینے کے لئے کئ اور حیلے اور بہانے بھی تلاش کۓ جا رہے ہیں کہ شاید موصوفہ گبھرا گئ ہوں گی اور بریک نہ لگا پائ ہوں۔ یا شاید گاڑی کے بریک خراب ہو گئے ہوں گے جوکہ ایک مضحکہ خیز بات ہے، بھلا ایک نئ لینڈ کروزر میں یہ تکنیکی مسئلہ کیسے آسکتا ہے۔
ان کے شوہر نے ہلاک ہونے والوں کی جانوں کی قیمت 68 لاکھ روپے مقرر کی ہے۔
‎مجھے معلوم نہیں کہ اس 68 لاکھ کے پیچھے کیا مقصد ہے۔ یہ 65 لاکھ کیوں نہیں ہوئے یا 70 لاکھ کیوں نہیں تھے شاید حکومت کی طرف سے مقرر کردہ دیت کی رقم ہو ، مگر تلخ سچائ یہ ہے کہ اس 68 لاکھ کے پیچھے ایک دل خراش کہانی ہے—غربت، بے بسی، معصومیت اور یاسیت کی کہانی۔ اور اس کہانی کا مرکزی کردار ہمیشہ ایک غریب ہی رہا ہے جو وقت اور حالات کی چکی میں ستر سال سے پس رہا ہے اور طاقت اور ہر ادارے میں اثّر رسوخ رکھنے والوں کو ہمیشہ سزا کے کٹہرے سے دور رکھا جاتا ہے

‎قتل جیسا سنگین جرم کرنے کے باوجود، یہ مجرم عدالتوں میں وکٹری کا نشان بناتے ہوئے نظر آتے ہیں، کیونکہ ہمارا قانون جنگل کا قانون بن چکا ہے، جہاں مظلوم کے لیے کوئی انصاف نہیں اور طاقتور کو ہر طرح کا تحفظ فراہم کیا جاتا ہے۔ مجھے بخوبی معلوم ہے کہ اس معاملے کو بھی دبایا جائے گا اور غریب کو انصاف ملنے کے بجائے 68 لاکھ روپے کی صورت میں انسانی جان کی قیمت ادا کر دی جائے گی۔

‎مجھے ان لوگوں پر حیرت ہوتی ہے جو اب بھی یہ سمجھتے ہیں کہ انہیں عدالت سے انصاف ملے گا۔ سوشل میڈیا پر ہر جگہ اس خاتون کے بارے میں سچائیاں منظر عام پر آرہی ہیں، لیکن میں یقین سے کہہ سکتی ہوں کہ اس بار بھی طاقت، رعب اور دبدبہ جیت جائیں گے اور معصومیت اور غربت ایک بار پھر ہار جاۓ گی۔ مگر یہ کب تک چلتا رہے گا؟ کیا کبھی اس نظام کو بدلنے کے لیے کوئی مسیحا آئے گا؟

‎نہیں، اب کوئی مسیحا نہیں آئے گا۔ اب ہر انسان کو اپنے لیے خود ہی نکلنا ہوگا، جیسے بنگلہ دیش کے عوام نے اپنے حقوق کی جنگ خود لڑی تھی۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ بھی ان ہی کی مدد کرتے ہیں جو اپنی مدد آپ کرتے ہیں۔

‎اس ملک میں عدل، انصاف اور مساوات کا جنازہ ہر روز نکلتا ہے، ہر روز جب ایک طاقتور کمزور پر ظلم کرتا ہے اور کمزور کو ڈرا دھمکا کر خاموش کرا دیا جاتا ہے۔ میں جانتی ہوں کہ میرے یہ الفاظ پڑھنے والوں کے لیے تھوڑی دیر کا لمحہ فکریہ ہوں گے، لیکن اس کے بعد سب کچھ بھلا دیا جائے گا۔ شاید کوئی نیا واقعہ پرانے واقعے پر مٹی ڈال دے گا، اور ہم ہمیشہ کی طرح غریب کے ساتھ ہونے والے مظالم کو بھلا کر آگے بڑھ جائیں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں