محمد امانت اللہ۔ جدہ کالم نگار،پی این پی نیوز ایچ ڈی
تین طرح یعنی تین قسم کے افراد سے مل کر ایک معاشرہ وجد میں آتا ھے پائے۔
پہلی قسم ، اِن لوگوں کے دماغ میں نئے نئے آئیڈیاز آتے ہیں، تحقیق کرتے اور بعد میں ایجادات کرتے ہیں۔
انکی ایجادات انسانیت کے کام آتی ہیں۔
دوسری قسم ، مختلف موضوعات پر بات کرتے ہیں، کارناموں، ایجادات،
کائنات میں موجود چیزوں اور ارد گرد رونما ہونے والا حالات واقعات
پر اپنی رائے دیتے ہیں۔
انکی یہ سوچ معاشرے میں مثبت کردار ادا کرتی ھے۔ یہ لوگ ان لوگوں کو بھولنے نہیں دیتے ہیں جنہوں نے انسانیت اور ملک کی خاطر کوئی کارنامہ سر انجام دیا ہوتا ھے۔
اپنی گفتگو، مقالہ اور ٹی وی کے پروگراموں میں انکا ذکر ضرور کرتے ہیں۔
تیسری قسم ، اُن لوگوں کی ھے جو صرف لوگوں کے کردار پر بات کرتے ہیں۔
لوگوں میں صرف عیب تلاش کرتے ہیں، انکو اچھائی نظر نہیں آتی ھے
کردار کشی کرنا انکا محبوب مشغلہ ھے۔ عیب جوئی انکی عادت ھے۔
ٹی وی کے ٹاک شوز میں لوگوں کے کردار اور بیانات پر بات کی جاتی ھے
مفروضہ پر بات ہوتی ھے جسکا حقیقت سے تعلق کم ہی ہوتا ھے۔
پورے معاشرے میں بالخصوص نوجوان نسل کی ذہنوں میں ناامیدی، خودسری اور غیر اخلاقیات کا زہر گھول دیتے ہیں۔
یہ لوگ برائی کو برائی نہیں سمجھتے ہیں، بلکہ اسکو جمہوری آزادی کے طور پر پیش کرتے ہیں۔
مقررین مہمانوں کی دل آزاری کرتے ہیں، نتیجہ گالم گلوچ تک پہنچ جاتا ھے۔
مشہور جملہ سننے کو ملتا ھے
پروگرام کہاں جاری رہا پروگرام تو وڑھ گیا
مسلمان ہونے کے ناطے ہم پر کچھ معاشرتی فرائض ہیں معذرت کے ساتھ اکثریت اس سے ناواقف ہیں۔
اگر کسی کے عیب اور کمزوری کو جانتے ہیں اسکی پردہ پوشی کریں
آج آپ کسی کے عیب کی پردہ پوشی کریں گے قیامت والے دن اللہ رب العزت آپکے عیبوں کی پردہ پوشی فرمائیں گے۔
ہم فخر سے لوگوں کے عیبوں کو اپنی گفتگو کی زینت بناتے ہیں، بہت ممکن ھے اس شخص نے توبہ کر لی ہو۔
دلوں کا حال تو اللہ ہی جانتا ھے
اسکے ماضی کو کریدنے سے گریز کرنا چاہیے۔
صحتمند معاشرہ کے لیے ضروری ھے مثبت سوچ رکھی جائے، مثبت سوچ مثبت گفتگو سے آتی ھے اور مثبت گفتگو وہی لوگ کرتے ہیں جو پہلی اور دوسری قسم کے افراد ہیں۔
اُن لوگوں کی صحبت میں رہا کریں جو کردار پر انگلیاں نہیں اٹھاتے ہیں۔
بلکہ عیبوں پر پردہ ڈالتے ہیں۔