تیسری قسط
از تحریر: عبدالخالق لک
نیویارک کی یہ کاؤنٹی بروکلین کی ایک اہم خوبی یہ بھی ہے کہ یہاں پاکستانیوں کی اکثریت آباد ہے۔ پاکستان کے قومی دن ہوں یا پھر مذہبی تقریبات ، سب بڑے پرجوش انداز میں منائی جاتی ہیں کہ پردیس کا تاثر کافی حد تک ذائل ہو جاتا ہے جبکہ نیویارک کے “کونی آئی لینڈ ایونیو ” کے آس پاس کے علاقے کو غیر رسمی طور پر ’لٹل پاکستان‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ اسی طرح ایک دو سال پہلے بروکلین میں ایک مصروف ترین شاہراہ کا ایک حصہ بانی پاکستان محمد علی جناح کی عظمت کا اعتراف کرتے ہوئے ان کے نام سے منسوب کر دیا گیا تھا جو نہ صرف امریکا میں رہائش پذیر پاکستانی نژاد شہریوں کے لیے بلکہ پاکستان میں بسنے والے افراد کے لیے بھی ایک تحفہ ہے.
ان تمام باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے میں نے یہ اندازہ لگایا کہ امریکہ کے اندر ہی تیسری دنیا کے ممالک اور امریکہ دو الگ الگ دنیائیں بسائے ہوئے ہیں ۔ میں صرف اپنے ابتدائی مشاہدے کی بنیاد سرسری طور پر یہ بتا سکتا ہوں کہ مجھے ایسا لگا کہ سائنسی بنیادوں پر استوار امریکہ مشاعرے میں تیسری دنیا کے قدامت پرست طبقات کو امریکی معاشرت میں اپنے قابل قبول سماجی طرزِ فکر اور روایات کے ساتھ زندگی گزارنے میں قطعاً مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑتا جیسا کہ عام طور پر وہاں رہنے والے ہمیں بتاتے ہیں ۔ یہ میرے مشاہدات ہیں مگر ہو سکتا ہے کہ آپ مجھ سے متفق نہ ہوں اور اپنے تئیں کوئی نتیجہ اخذ کر لیں جس کا کم از کم میں زمہ دار نہیں ہوں گا۔ دیکھیں ہر سماج اور ریاست میں کچھ اچھی چیزیں ہوتی ہیں اور کچھ بری ۔ قانون کی پاسداری ان ممالک میں اولین ترجیح سمجھی جاتی ہے اور میرے خیال میں قابل مطالعہ اور قابل غور بھی یہی عوامی ہیں یعنی امریکہ میں قانون کا احترام اور اس کے فوائد اور پھر ان کے ثمرات جو صدی سے زائد مدت سے جاری و ساری ہیں۔ جن پر ہم آگے چل کر بات کریں گے.
امریکی معاشرہ کیپیٹل ازم نظریات پر کھڑا ہے، وہاں امیر غریب کا فرق واضح طور پر نظر آئے گا۔ رہائشی کالونیوں میں یہ طبقاتی تقسیم بھی نمایاں ہے بلکہ کسی حد تک غالب ہے۔ رہن سہن میں بھی فرق محسوس کیا جا سکتا ہے۔حکومت کی جانب سے دئیے گئے رہائشی سہولیات کو نیو یارک میں” پروجیکٹس ایریا ” بولا جاتا ہے۔ کالے یا افریقیوں کے لیے الگ مخصوص ریائشی ایریاز ہیں ۔ سچ یہی ہے کہ امریکہ بیک وقت دو متضاد رویوں یا انتہاؤں کی سرزمین ہے جس کی رکھوالی آئین ، قانون اور پارلیمنٹ کی زمہ داری ہے جسے وہ پوری دیانتداری سے ادا کر رہے ہیں ۔ مزید برآں ان کے ے رہائشی علاقوں میں ہی آپ کو فارم ہاؤس بھی ملیں گے جبکہ بڑے بڑے حویلی ٹائپ گھروں کا سلسلہ بھی بہت زیادہ ختم ہو گیا ہے ۔ اسکے علاوہ جس بات نے مجھے بہت زیادہ متاثر کیا ہے وہ وہاں پارکنگ نظام ہے۔
مزدور کی مزدوری کی بات کریں تو وہاں معاوضہ گھنٹہ کے حساب سے سترہ سے پچیس ڈالر تک ملتا ہے۔ ایک مزدور ہفتہ بھر میں تقریباً ایک ہزار ڈالر آسانی سے کما لیتا ہے، جسے اگر آج کل پاکستان میں ڈالر کی قیمت کے ترازو میں تولیں تو یہ دو لاکھ اسی ہزار روپے ہفتے کے بنتے ہیں جس میں ویک اینڈ کا آرام شامل ہیں ۔ میں نے دیکھا کہ مزدور اپنی آمدن ہفتہ وار بتاتے ہیں جبکہ “بابو طبقہ” سالانہ آمدن کا پتہ پھینکتا ہے.
گاڑی میں پیٹرول خود بھرنا ہوتا ہے اور اپنا کارڈ مشین میں ڈالنا ہوتا ہے۔کولڈ ڈرنکس اور نشہ آور مشروبات ایک ھی شیلف میں پڑے ہوتے ہیں یہ آپ پر منحصر ہے کیا اٹھانا پسند کرتے ہیں ۔ایک بات بہت زیادہ مزے کی لگی کہ کولڈ ڈرنکس دکاندار ایسے ھی پکڑا دیتا ہے جبکہ دوسرا مشروب قانونی طور پر وہ خاکی لفافے میں ڈال کر دینے کا پابند ہے۔ آپ کوک وغیرہ سر عام پی سکتے ہیں مگر الکحل وغیرہ سر بازار پینا ممنوع ہے۔۔۔ لو جی یہاں پر فلمی فینٹسی کا خاتمہ بالخیر ہوتا ہے.
تمام گاڑیاں آٹومیٹک ہیں، امریکی اور چاپانی گاڑیاں بہت ہیں جبکہ کار واش بھی آٹو ہیں۔ گاڑی نیوٹرل کر دو وہ خود بخود بیلٹ پر آگے چلتی رہے گی۔ تہاڈی موجاں ۔
امیر لوگ کپڑے دھونے کی زحمت نہیں کرتے بلکہ کچھ دن پہن کر مختلف جگہ پر بجھوا دیتے ہیں یا پھر مخصوص مقامات پر رکھے ہوئے ڈونیشن باکس پیٹیاں میں ڈال دیتے ہیں کیونکہ کپڑے دھونے سے وقت ضائع ہوتا ہے ۔ وہ کپڑے وہاں سے مختلف ادارے اٹھاتے ہیں ، چھانٹی ہوتی ہو پھر وہ غریب ممالک کے لنڈا بازار میں پہنچ جاتے ہیں۔ آگے تسی آپ سمجھ دار او۔۔۔ اسپغول تے کجھ نہ پھول ۔۔
وہاں کا ورکر پانچ دن جان توڑ محنت کرتا ہے اور پھر اگلے دو دن اس آمدنی سے لذت و نشاط کی دنیا سجاتے ہیں، کھاتے ہیں یا اڑاتے ہیں۔ امریکہ میں آن لائن شاپنگ کا رحجان بہت زیادہ ہے، جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ۔کرونا وائرس کے بعد ہوم بیسڈ ورکرز اور ڈیلیوری کے لیے عملہ کی طلب میں اضافے دیکھنے میں آیا ہے.
گاڑی کے چالان اور پولیس کے کیمرہ فلیش سے جان جاتی ہے کیونکہ ڈرائیونگ لائیسنس کینسل ہونے کا ڈر لوگوں میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ اسی طرح قانونی اور غیر قانونی سے قطع نظر یہ بات اہم ہے کہ غیرقانونی رہائشی جرم کا مرتکب نہ ہو ، شک پڑنے پر پھر امریکی پولیس اور قانون سے رعایت ملنا ناممکن سی بات ہے۔وہاں بلاوجہ کوئی روک کر سوال و جواب نہیں کرتا ۔ جب تک وہ کوئی جرم نہ کر رہے ہوں ۔وہاں “ٹپ ” کو عبادت کا درجہ دیا جاتا ہے ے ۔ ٹپ دینے والے کا سو سو بار شکریہ ادا کیا جاتا ہے جبکہ اچھی ٹپ نہ دینے والے کو انتہائی ناپسند نظروں کا سامنا کرنا پڑتا ہے شاید دل ہی دل میں سو بار گالیاں بھی دی جاتی ہوں۔
قانون کی نظر میں مرد و عورت دونوں برابر ہیں ، کسی قسم کا امتیاز روا نہیں رکھا جاتا البتہ عورتوں کے آنسو بہانے پر نرمی ہو جاتی ہے۔ اب ہر عورت نے بھی یہ راستہ اپنا لیا ہے تاہم دوست بتاتے ہیں کہ عدالتیں بھی عورت کیلئے نرم رویہ اختیار کرتی ہیں۔ ہائے زنانی جہاں کی بھی ہو اپنے لیے سہولت نکال ہی لیتی ہے.
جاری ہے———————————