پھر وہی رات ہے
خاموش آہٹوں سے بھری
کھول کر کھڑکی کو
لمبی سی نیلی سڑک کو تکنا
پتوں کی بے جان لاشیں
رقص کرتی
بے خودی میں
خود کو ٹہنیوں سے گراتے
قہقہہ سرا ہیں
گھوڑوں کے سوار
ان کو جنگلوں میں چھوڑ گئے ہیں
کچھ درختوں کی جڑوں میں
خاکستر خواب گرے ہیں
بہار کا درد کم ہوا کیا؟
پہاڑوں سے اب
برف کی پریاں اترنے کو ہیں
پانی کی لہریں
ماتم کناں تھیں
اتنی لمبی بہار!!!
شجر کا سینہ چھلنی
کتنے گل کھلائے
کتنے پتھر کھائے
کتنی دھوپ سمیٹی
کتنا سایہ پھیلا
بہار کا دکھ کم ہوا کیا؟
بلبل کو کچھ سکوں ملے گا
کوئل کی آہ بھی تھمے گی
تتلیاں خاک ہوں گی
جگنو بھی جل بجھیں گے
گھونسلے آباد ہوں گے
کئی پرندے لوٹ آئیں گے
پر وہ پہلے سے نہ ہوں گے
کئی پرندے وطن چھوڑ دیں گے
مگر وہ شاید کبھی نہ لوٹیں
چناروں کے سرخ پتے
اپنے دلوں میں آگ لگائے
گردن اٹھائے
ہم کو ڈھونڈتے ہوں گے
آہ ! یہ میرا بے چین دل
اس کا درد کیا کم ہو گا
چلو جانے دو اس بات کو تم
سنو! مجھے بتاو!!!
بہار کا دکھ کم ہوا کیا؟
نمیرہ محسن اکتوبر 2023