نمیرہ محسن 368

پھر وہی رات ہے

پھر وہی رات ہے
خاموش آہٹوں سے بھری
کھول کر کھڑکی کو
لمبی سی نیلی سڑک کو تکنا
پتوں کی بے جان لاشیں
رقص کرتی
بے خودی میں
خود کو ٹہنیوں سے گراتے
قہقہہ سرا ہیں
گھوڑوں کے سوار
ان کو جنگلوں میں چھوڑ گئے ہیں
کچھ درختوں کی جڑوں میں
خاکستر خواب گرے ہیں
بہار کا درد کم ہوا کیا؟
پہاڑوں سے اب
برف کی پریاں اترنے کو ہیں
پانی کی لہریں
ماتم کناں تھیں
اتنی لمبی بہار!!!
شجر کا سینہ چھلنی
کتنے گل کھلائے
کتنے پتھر کھائے
کتنی دھوپ سمیٹی
کتنا سایہ پھیلا

بہار کا دکھ کم ہوا کیا؟
بلبل کو کچھ سکوں ملے گا
کوئل کی آہ بھی تھمے گی
تتلیاں خاک ہوں گی
جگنو بھی جل بجھیں گے
گھونسلے آباد ہوں گے
کئی پرندے لوٹ آئیں گے
پر وہ پہلے سے نہ ہوں گے
کئی پرندے وطن چھوڑ دیں گے
مگر وہ شاید کبھی نہ لوٹیں
چناروں کے سرخ پتے
اپنے دلوں میں آگ لگائے
گردن اٹھائے
ہم کو ڈھونڈتے ہوں گے
آہ ! یہ میرا بے چین دل
اس کا درد کیا کم ہو گا
چلو جانے دو اس بات کو تم
سنو! مجھے بتاو!!!
بہار کا دکھ کم ہوا کیا؟
نمیرہ محسن اکتوبر 2023

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں