اقوام متحدہ کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اس نے خود بھی حق خود اداریت کو تسلیم کیا اور بھارت اور پاکستان کو بھی تسلیم کروایا. کشمیری راہنما سردار محمد رزاق خان 111

اقوام متحدہ کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اس نے خود بھی حق خود اداریت کو تسلیم کیا اور بھارت اور پاکستان کو بھی تسلیم کروایا. کشمیری راہنما سردار محمد رزاق خان

سٹاف رپورٹ (تازہ اخبار،پی این پی نیوز ایچ ڈی)

کشمیر کی جدوجہد آزادی میں عالمی برادری کا طرز عمل اقوام متحدہ نے ابتدائی تقريبا 9 سال تک مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کی کوشش کی اقوام متحدہ کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اس نے خود بھی حق خود اداریت کو تسلیم کیا اور بھارت اور پاکستان کو بھی تسلیم کروایا 1947کو مسلم لیگ اور کانگریس نے مسلہ کشمیر کو حل کرنے کا حق مہا راجہ ہری سنگھ کو دیا تھا البتہ کشمیر کے سلسلہ میں عالمی تنظیم کا قصور یہ ھے کے اس نے ایسا کرنے کی قانونی پوزیشن کے باوجود اس نے ایسا نہ کیا اقوام متحدہ میں مسئلہ کشمیر عالمی سیاست کا شکار ہو گیا 1948 سے 1957 تک روس جو اسوقت سویت یونین کہلاتا تھا جس کے 1989 میں درجن بھر ٹکڑے ھو گے مسئلہ کشمیر میں غیر جانبدار تھا اور اس نے اقوام متحدہ میں کشمیر پالیسی کے متعلق کسی قرارداد میں ووٹ نہیں دیا 20 فروری 1957 کو کشمیر رائے شماری کے متعلق قرارداد میں ویٹو کر دیا تھا اس نے دوسرا ویٹو 22 جون 1962 کو سلامتی کونسل کی قرارداد میں کیا 1965 کی جنگ کے دوران اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے کشمیر پر قرارداد منظور کی لیکن جنگ بندی کے بعد اس پر بحث نہیں ھوہی جولائی 1972 کے شملہ معاہدے کا اور اقوام متحدہ نے کشمیر میں کسی قسم کی کاروائی کرنے سے یہ کہہ کر انکار شروع کیا کے مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر موجود ہے جس میں کسی قسم کی کاروائی کے لیے اقوام متحدہ نے کہا کہ دونوں فریقین بھارت اور پاکستان کی رضا مندی ضروری ہے چونکہ بھارت اسکے لئے رضامند نہیں ھوتا اسلے اقوام متحدہ کچھ کر نہیں سکتی اور مزید کہا کہ بھارت اور پاکستان نے شملہ معاہدے کے تحت کشمیر کو دو طرفہ تنازعہ قرار دے کر باہمی اتفاق سے حل کرنے کا طے کیا ہے اسلے اقوام متحدہ بھارت اور پاکستان پر چھوڑتی ھے اور امید کرتی ہے کہ اس مسلے کا حل کر دیں گے غیر جانبدار تحریک اور سارک ممالک کی کانفرنس جس کے بھارت اور پاکستان دونوں ممبر ہیں کے قواہد وضوابط دو ممبر ملکوں کے مابین تنازعہ پر بحث کئ اجازت نہیں دیتے دولت مشترکہ کے وزاراے اعظم نے ابتدائی عشرے کے دوران اس مسلے کو حل کرنے کی کوشش کی تھی لیکن ناکام رہے اسرائیل کے وزیر اعظم نے ایک بار دولت مشترکہ کے سربراہان کی کانفرنس کے دوران بھارت کے وزیراعظم اور پاکستان کے وزیر اعظم کو ایک کمرے میں بند کر کے کہا تھا کے میں آپ لوگوں کو اس وقت تک باہر نہیں آنے دوں گا جب تک آپ مسئلہ کشمیر کے حل پر متفق نہیں ھونگے لیکن پنڈت نہرو نے اس پر بہت غصے کا اظہار کیا اسلامی کانفرنس اگرچہ اقوام متحدہ کی قرارداد کے مطابق مسلہ کشمیر حل کرنے پر زور دیتی ہے لیکن اس نے اس سلسلے میں کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا اکثر ممبر بھارت کو ناراض نہیں کرنا چاہتے غرض ابتدائی کوششوں کے باوجو د عالمی برادری گزشتہ تقريبا 4 عشروں سے مسئلہ کشمیر میں دلچسپی نہیں لے رہی جسکی بنیادی وجہ اقوام متحدہ کے ممبران کے قومی مفاد ہیں عالمی سیاست میں آج کل جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا راج ہے نام نہاد اصولوں کی حکمرانی ہے حق انصاف اور رواداری قانون و قواہد کا احترام اور انسانی حقوق نام کی چیزیں قصہ پارینہ بن گی ہیں خاص کر چھوٹی قوم کے مفاد کو بڑی طاقت اپنے مفاد کے لئے استعمال کرتی ہیں آج کی بین الاقوامی سیاست منافقت اور دہرا معیار کی اور طوطا چشمی کی بہترین مثالیں ہیں یہاں قول فعل اور ظاہر باطن میں ہم آہنگی نام کی کوئی چیز دکھائی نہیں دیتی تعجب کی بات یہ ہے کہ ہماری بین الاقوامی مسلمان برادری ذاتی اور قومی مصلحتوں کا شکار ہے ایسے میں ہمیں چاہیے کے ہم خدا سے دعا کریں کہ وہ ہم میں ایسی قوت پیدا کرے کے ہم غاصب کے شکنجے سے اپنے پیارے کشمیر کو آزاد کروا سکیں.

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں