The fire of chaos 220

انتشار کی آگ (محمد امانت اللہ جدہ)

انتشار کی آگ

محمد امانت اللہ جدہ

کیفے پیالہ کی چائے کراچی میں بہت مشہور ہے۔
یہاں اکثر چھڑے حضرات چائے پینے آتے ہیں گپ شپ لگاتے ہیں دوستوں سے ملاقات کرتے ہیں

ایک ٹیکسی آ کر رکتی ہے اس میں سے تین چار لوگ اترتے ہیں، اتنے میں تین ڈاکو آتے ہیں اور ٹیکسی والے سے
ٹیکسی گن پوائنٹ پر چھین کر لے جاتے ہیں جبکہ اسی جگہ پر پولیس کی گاڑی کھڑی ہوتی ہے خاموش تماشائی بن کر سارا تماشہ دیکھ رہی ہوتی ہے۔
ٹیکسی والا انکی طرف رجوع کرتا پولیس مگر کی گاڑی روانہ ہو گئی۔
رات کا وقت تھا اسنے یہی مناسب سمجھا دوسرے دن صبح جا کر رپورٹ درج کرائے گا۔
دوسرے دن پولیس اسٹیشن گیا ایف آئی آر درج کرنے۔
ایس ایچ او نے سوال کیا واقعہ کتنے بجے پیش آیا تھا اسنے کہا یہی کوئی رات کا بارہ بجا ہوگا۔
وہاں پر موجود ایک پولیس اہلکار نے کہا نہیں پونے بارہ بجا تھا۔ اسنے جب اسکی طرف غور سے دیکھا اور پہچان گیا ، کہا صاحب یہی وہ آدمی ہے جس نے میری نئی گاڑی چھینی ہے

ایس ایچ او نے کہا ٹیکسی ڈرائیور کو لاک آپ میں بند کر دو، پولیس پر الزام لگا رہا ہے
ٹیکسی ڈرائیور شام تک لاک آپ میں بند رہا گھر والے اسکو ڈھونڈتے ہوئے پہنچ گئے
گھر والوں کو سارے واقعہ کا علم ہوا تو دوسرے دن سفارشی خط لا کر ایس ایچ او کو دیا اور ٹیکسی ڈرائیور کی جان چھوٹی۔
اس واقعہ کا علم کیفے پیالہ کے ملازمین کو ہوا اور بات شہر بھر میں پھیل گئی
عوام پر اسکا اثر یہ ہوا لوگوں کا پولیس اور اس تھانے کے ایس ایچ او پر سے اعتماد اٹھ گیا۔

بالکل اسی طرح الیکشن میں نواز شریف کے مقابلے میں ڈاکٹر یاسمین راشد وہی ہیں جنہوں نے جعلی میڈیکل پورٹ کو سچ سمجھ کر رونے لگیں تھیں، خان صاحب سے سفارش کی میاں صاحب کو فوری علاج کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دیں۔

آج میاں صاحب نے اسی ڈاکٹر یاسمین راشد کے خلاف دھاندلی سے الیکشن جیت کر خوشیاں منا رہے ہیں

اس واقعہ نے اخلاقی ہمدردی اور انسانیت پر سے بھروسہ اٹھا دیا ہے

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس صاحب کی عدالتی کارروائی اور پی ٹی آئی سے انتخابی نشان چھینا ہے
عوام کا عدالتوں پر سے بھروسہ اٹھ گیا ہے
الیکشن کمیشن نے نتیجہ روک کر جس طرح مینڈیٹ کا قتل عام کیا ہے
عوام سوچنے پر مجبور ہو گئی ہے
اگر یہی کچھ کرنا تھا تو الیکشن پر عوام کے 57 ارب روپے کی خطیر رقم خرچ کرنے کی ضرورت کیا تھی
الیکشن کمیشن ایک متنازعہ ادارہ بن گیا ہے عوامی نمائندوں کا بھروسہ اٹھ گیا ہے۔

الیکشن سے قبل کاغذات نامزدگی چھینے گئے لوگوں کو پکڑا گیا دفعہ 144 لگائی گئی، آج یہ بات ثابت ہو گئی ہے عوام عمران خان سے محبت کرتی قید و بند کی صحبتیں برداشت کرنے کے باوجود انکو اپنا حقیقی لیڈر تسلیم کرتی ہے

کمشنر راولپنڈی کی پریس کانفرنس، محمود اچکزئی کی اسمبلی میں تقریر
اس بات کی طرف نشاندہی کرتی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ میں موجود حاضر افسران نے آئین پاکستان کے ساتھ کس طرح کھلواڑ کیا ہے
عوام کا بھروسہ اور اعتماد ان اداروں پر سے اٹھ گیا ہے
الیکشن 2024 میں کون جیتا اور کون ہارا اس بحث سے لاتعلق ہو کر ایک ہی بات سامنے آئی ہے
عوام کا اب کسی ادارے پر اعتماد نہیں رہا ہے ، عوام سمجھتی ہے ہم جسے اپنا سمجھتے تھے وہ ہمارے نہیں ہیں

یہ صورتحال اس وقت پیدا ہوتی ہے جب ملکی ادارے ہی قانون کی پاسداری نہیں کرتے ہیں۔

قوم ایسے دوراہے پر کھڑی ہے جہاں اسکو ملکی سالمیت اور خودداری کا کوئی بھی نگہبان نظر نہیں رہا ہے۔
ملکی خزانوں پر وہ لوگ مسلط ہیں جنکی اولین ترجیحات ملکی خزانہ لوٹنا ہے
جب لاقانونیت عام ہو جائے قانون کی بالادستی ختم ہو جائے ان حالات میں
ملک آہستہ آہستہ دیوالیہ پن اور خانہ جنگی کی طرف بڑھنے لگتا ہے
اس سے قبل انتشار کی آگ ہم سبھوں کو جلا کر خاک کر دے
فارم 45 کے مطابق کامیاب امیدواروں کو انکا حق دیا جائے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں