چیف جسٹس نے کہا فوج کی غیر قانونی تعمیرات کو چھوڑ دیا 267

چیف جسٹس نے کہا فوج کی غیر قانونی تعمیرات کو چھوڑ دیا تو باقی کو کیسے گرائیں گے؟

(سٹاف رپورٹ،تازہ اخبار،پاک نیوز پوائنٹ )
انہوں نے کہا کہ کارساز اور راشد منہاس روڈ پر اشتہارات کے لیے بڑی بڑی دیواریں تعمیر کر دی گئیں، فیصل بیس پر اسکول، شادی ہالز بھی بنے ہوئے ہیں، کوئی بھی دہشت گرد شادی کا مہمان بن کر رن وے پر بھاگ جائے گا، مسرور اور کورنگی ایئربیسز بند کیے جا رہے ہیں، کیا اب ایئربیس بند کر کے وہاں کمرشل سرگرمی شروع کی جائیں گی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کنٹونمنٹ زمین دفاعی مقاصد پورا ہونے پر حکومت کو واپس کرنا ہوتی ہے، یہ زمین حکومت نے جن لوگوں سے لی ہے انہیں واپس کریں۔
انہوں نے ریمارکس دیے کہ فوج کو معمولی کاروبار کے لیے اپنے بڑے مقاصد پر سمجھوتہ نہیں کرنا چاہیے، فوج کو اپنے ادارے کے تقدس کا خیال رکھنا چاہیے، کوئٹہ اور لاہور میں بھی دفاعی زمین پر شاپنگ مالز بنے ہوئے ہیں، سمجھ نہیں آرہی وزارت دفاع کیسے ان سرگرمیوں کو برقرار رکھے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ اعلیٰ فوجی افسران کو گھر دینا دفاعی مقاصد میں نہیں آتا، فوج ریاست کی زمین پر کمرشل سرگرمیاں کیسے کر سکتی ہے؟ ریاست کی زمین کا استحصال نہیں کیا جاسکتا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ فوجی افسران نے کروڑوں کی زمین چند لاکھ میں فروخت کی، فوج کی تمام رولز اور قوانین کا آئین کے تحت جائزہ لیں گے، فوج کاروبار کرنے کے لیے نہیں بلکہ ملک کے دفاع کے لیے ہوتی ہے۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب، فوج کو قانون کون سمجھائے گا؟ پرل مارکی اور گرینڈ کنونشن ہال ابھی تک برقرار ہیں، کالا پُل کے ساتھ والی دیوار اور گرینڈ کنونشن ہال آج ہی گرائیں۔
انہوں نے کہا کہ راتوں رات گزری روڈ پر فوج نے بہت بڑی عمارت کھڑی کر دی ہے، گلوبل مارکی سے روزانہ کروڑوں روپے کمائے جارہے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں