Syed Fayaz Hussain Geelani 154

آخر کیوں

تحریر : سید فیاض حسین گیلانی
اگر آپ افغانستان کے نقشہ کا جائزہ لیں تو افغانستان تقریباً پانچ ملکوں کے ساتھ اپنا بارڈر رکھتا ہے۔ ان ممالک میں سے پاکستان کے علاوہ چین تاجکستان ایران اوردوسری سابقہ روسی ریاستوں بلکہ کچھ دور نذدیک بھارت اور روس تک۔اب اگر پاکستان کے علاوہ دوسرے ممالک کی طرف دیکھیں تو ان میں سے کسی ایک ملک کی بھی ثقافت تاریخ یا ذبان افغانوں سے نہیں ملتی بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ ان کا عقیدہ و مذہب بھی افغانوں سے نہیں ملتا تو غلط نہ ہوگا۔ کیونکہ چین وغیرہ تو ویسے ملحد ہیں جبکہ ایران ایک تھیو کریٹک شیعہ جعفری مسلک کی شاید واحد مملکت ہے اس عقیدہ پر دنیا بھر میں۔ اور شعیہ جعفری یا اثنی عشری وہ اسلام کا فرقہ ہے جس پر دوسرے مسالک شدید تحفیضات رکھتے ہیں۔ جبکہ افغانوں کی اکثریت خاص کرپختون بلٹ کی ایک بہت بڑی اکثریت دیو بندی ہے۔ ایک ہارڈ کوردیو بندی سوچ کہ جس کی اوپر جائیں تو بنیاد امام ابن تیمیہ سے بنتی ہے اور اسلامی مکاتب میں یہ واحد فرقہ ہے کہ جس کے شیعہ کے ساتھ انتہاء درجے کے اختلاف ہیں۔ شیعہ خصوصاً جعفری یا اثنی عشری ان کو خوارج اور یذیدی سے تشبع دیتے ہیں اور ان کو کھلے عام ناصبیت کا شاہکار قرار دیتے ہیں اور ناصبیت کا مطلب ہے آئمہ اہل بیت اور خاص کر امام علی ع کی مخالفت۔ جبکہ دوسری طرف افغان میں موجود طالبانی فکر ایرانیوں کو عقیدہ و مسلک کی بنیاد پر رافضی کہتے ہیں۔اور رافضی کا مطلب ہے کہ کچھ اوائل اسلامی دور کی چند شخصیات خاص کر اہل بیت میں شامل لوگوں کو اس حد تک بڑھا دینا کہ ان کو خدا کے مقابل لے آنا ہے۔ سو ان کے نکتہ نظر سے ایرانی ایک لحاظ سے کافر و مشرک ہیں۔ اسی طرح تاجکستان کی اکثریت صوفی ازم پر کاربند ہے کہ جن سے ہمارے ہاں کےبریلوی بہت مماثلت رکھتے ہیں عقیدہ کی بنیاد پر۔ سو ان سےبھی موجودہ افغان حکومت کہ جو بیشک ملاء عمر کے دور کا ہی اجراء ہے۔ شدید مذہبی اختلاف رکھتی ہے۔تاجک روحانیت کو دین کی بنیاد کہتے ہیں اور وہاں روایتی طور پر پیری فقیری کی بہت اہمیت ہے جبکہ افغان اس کو شرک و بدعت کہتے ہیں۔ ویسے بھی ایک لمبے عرصہ تک چونکہ تاجکستان کیمونسٹ روس کے انڈر رہا ہے سو وہاں ویسے بھی دین پر قریب پچانوے سال پابندی رہی سو تاجک لوگ کی اکثریت شاید اب بھی اسلام کے بنیادی احکامات سے بھی لاعلم ہے۔ کیونکہ برزنف کے دور تک تو وہاں مساجد بنانا التہ کہ قران گھر رکھنا قانونا جرم اور قابل گرفت ریاست تھا۔سو ہم کہنا یہ چاہتے ہیں کہ افغانستان کے تقریباً تمام پڑوسی اس سے تاریخی ثقافتی معاشرتی اور خاص کر مذہبی جو کہ افغانوں واسطے بہت اہمیت رکھتے بالکل مختلف ہیں۔ اب اگر آپ پاکستان کو دیکھیں تو پاکستان اور افغانستان کے درمیان بہت ذیادہ یکسانیت ہے۔ ہم ایک بہت بڑی تعداد پختونوں کی رکھتے ہیں کہ جن کا مذہبی عقیدہ تاریخ ثقافت اور معاشرت تقریباً ایک ہی ہے۔ پھر ہمارے پاس بہت بڑی ہزارہ کموینٹی ہے جو براراست افغانستان سے وابسطہ ہے۔ تاریخی طور پر ہمارے غلط یا صیح ہیرو غزنوی و غوری اصلتاً افغان تھے۔ پھر ہمارا یہ دعوی ہے کہ ہم نے افغانوں کی ہر موقع پر مدد کی۔ خاص کر روس کی جارحیت کے دوران۔ ہم نے لاکھوں افغانوں کی مہمان نوازی کی۔ ہماری ایجنسیاں براراست افغانوں جنگجو عناصر کی مدد کرتی رہی۔ ہمارے ہزاروں بچے رضاکارانہ طور پر افغان مجاہدین کے ساتھ مل کر روسی افواج سے جنگ کرتے رہے۔ آج بھی ہماری بیشمار خواتین کے شوہر اور بیشمار مردوں کی بیگمات افغانی ہیں تو پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہمیشہ سے افغانوں کی نفرت کا نشانہ ہم ہی کیوں بنتے ہیں۔ ہمارے ملک میں خود کش دھماکے یا دہشت گردی کے حملےافغان یا ان کے سہولت کاروں کی جانب سے ہی کیوں ہوتے ہیں۔ عوام کی جانب سے بہرحال یہ بلین ڈالر سوال تو ہے۔کیا یہ سوال ہمارے ان ارباب اختیار واسطے باعث فکر نہیں ہے کہ جہنوں نے اول دن سے اور خاص کر سویت یونین کے افغان پر داخلے کے وقت ایسی پالیسی بنائی۔ کیا اب وقت آنہیں گیا کہ ہم عوام کو سچ بتائیں اور یہ تسلیم کریں کہ اس میں بنیادی غلطی ہماری ہی ہے۔ آج وقت آگیا ہے کہ یہ سچائی تسلیم کر لی جائے کہ افغان میں جہاد نہیں فساد تھا۔ روس نے افغان پر حملہ نہیں کیا تھا بلکہ وہاں کی حکومت کی درخواست پر کیمونسٹ حکومت بچانے آیا تھا گرم پانیوں کی طرف پیش رفت کرنے نہیں۔ عوام کو یہ بتایا جائے کہ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا خاتمہ اور پھانسی کی بڑی وجہ ایٹمی پروگرام نہیں بلکہ امریکی خواہش پر افغانستان میں مداخلت سے انکار تھا۔ ہم نے محض امریکی دباؤ میں سٹریجک ڈیپتھ اور گرم پانیوں پر قبضہ کی انتہائی بکواس تھیوری تشکیل دی تھی۔ آپ غور کریں عمومی طور پر حکومت کی بین الاقوامی سیاسی پالیسیوں سے عام عوام الگ رہتے ہیں۔ مثال کے طور پر بھارت میں عام بھارتی پاکستان سے نفرت نہیں کرتا۔ ایک عام امریکی روس سے نفرت نہیں کرتا لیکن حقیقت یہ ہے کہ افغان عوام میں ہم سے نفرت کا عنصر بہت ذیادہ ہے۔ اس کی وجہ فقط یہ ہے کہ ہماری افغان پالیسی امریکہ کی خواہش اور مفادات پر رہی۔ پہلے ہم امریکہ کے حکم پر اسی کی دھائی میں نام نہاد مجاہدین جو ہم نے خود ہی بنائے تھےکے ساتھ مل کر افغان کی حکومت کے ساتھ لڑتے رہے۔ پھر ہم نے نئی پیش رفت کی اور ملا عمر اینڈ کمپنی کو خلیفہ بنا کر انہیں وار لارڈ کہ جن کو مجاہدین کہتے تھے سے لڑنا شروع کر دیا۔ پھر امریکہ کے ساتھ مل کر اپنی ہی بنائی ہوئی خلافت جدید کو مارنا شروع کر دیا۔ پھر امریکہ کے جانے کے بعد ایک بار پھر انہیں عناصر کو گڈ طالبان بنا کر اشرف غنی کو مار بھگایا اور اب پھر مغرب و یورپ کی تحریک پر دوبارہ موجودہ جو گڈ طالبان تھے سے مخاصمت شروع کردی۔ یعنی ہم نے ایک بھی ہمدرد اپنا وہاں نہ رہنے دیا۔ بلکہ سابق وزیر اعظم عمران خان کا یہ مقبول فقرہ کہ کوئی اور رہ تو نہیں گیا۔ یعنی بقول ہمارے افغان میں کوئی ہمارا حمایتی رہ تو نہیں گیا اور اگر رہ گیا تو کوشش کریں اسکو دشمن بنا لیں۔آخر ہمیں یہ اعتراف کرنے میں کون سا امر مانع ہے کہ ہم تسلیم کر لیں کہ شروع سے ہی ہماری افغان پالیسی کسی بھی اخلاقی شعرعی یا انسانی پیمانے پر نہ تھی۔ التہ کے یہ پالیسی ہمارے اپنے مفادات کے خلاف تھی۔ اور اس کا ہرجانہ ہمیں بلین ڈالرز کے نقصان کے ساتھ دینا پڑھا۔ ہمارے ملک کی مساجد مارکیٹیں سکول امام بارگاہیں لہو لہو ہوگئی۔ یہ بہت افسوس کا مقام ہے کہ ہم ابھی تک یہ مطالبہ نہیں کر رہے کہ ایک اعلی سطحی کمیشن بنایا جائے کہ جس میں سینیر ترین سیاستدان وکلاء پارلیمنٹیرین صحافی سیول بیورو کریسی اور اعلی فوجی افسران ہوں جو اس معاملے کی تحقیق کریں کہ ہماری یہ امریکہ غلام پالیساں کون کون بناتا رہا اور اس کا کس حد تک ہمیں نقصان ہوا۔اس کا ذمہ دار و مجرمین کون ہیں۔ اور پھر اس کمیشن کی سفارشات کی روشنی میں حال اور مستقبل کی پالیسی تشکیل دی جائیں۔اور اگر ہم نے ایسا نہ کیا اور اپنے بچوں کے سامنے حمید گل جنرل اختر و جنرل مشرف جیسے کرداروں کو صلاح الدین ایوبی بنا کر پیش کرتے رہے تو پھر یاد رکھنا کہ مشرق کہ بعد ہم اپنے مغرب میں بھی ایک مستقل دشمن بنا کر رہیں گے۔ بلکہ بنا چکے ہیں۔اور ہمارا یہ دشمن مشرقی یعنی ہندوستان سے بہت ذیادہ خطرناک ہے۔ کیونکہ اول تو ہندوستان ہمارے ہاں غیر ضروری دہشت گردی نہیں کرتا۔ دوسرا اگر وہ ایسا کرنا چاہے تو بھی اس واسطے نہ اتنا آسان ہے نہ ممکن۔ جبکہ افغانوں واسطے بندہ مارنا ایک مچھر مارنے سے ذیادہ اہمیت نہیں رکھتا اور پھر ان واسطے ہمارے ملک میں نہ صرف ایک طبعقہ میں ہمدردی کا عنصر ہے بلکہ ہمارے کچھ جاہل ان کے کاز کومذہب کا حکم سمجھ کر تسلیم بھی کرتے ہیں۔مطلب افغانوں واسطے ہمارے ملک میں دہشت گردی کرنا انتہاء پسندی پھیلانا اور معاشرتی انارکی پیدا کرنا نسبتا بہت آسان بھی ہے اور قابل عمل بھی۔ اور ایک ہم ہیں کہ اس کو سنجیدہ لینا چاہتے ہی نہیں۔ ہم آج بھی حکومتی اور اداروں کی سطح پر انکل سام کی خوشی اور حکم کے متمنی ہیں اور عوامی سطح پر روس کو مار بھگایا امریکہ کو شکست دے دی جیسے بچگانہ اور جذباتی نعروں کے اسیر ہیں۔ سو آئیں آج سے یہ مطالبہ کریں کہ ہمیں سن اٹھتر سے لیکر آج تک کے افغان معملات سے سچائی سے آگاہ کیا جائے۔ پاکستان کے ان گنت نقصانات کے ذمہ داران کا تعین کیا جائے اور نئی افغان پالیسی کو اپنے مفادات کے تحت افغانستان کی عوام کی فکر کے مطابق تشکیل دی جائے۔ ورنہ دوسری صورت میں آئندہ کہیں سال تک اپنا معاشی نقصان بھی کرتے رہو اور اپنے بچوں کا لہو بہتا دیکھ کر بس ترانے بناتے رہو۔ ﷲ ﷲ خیر صلی۔ مگر حکومت یا اسٹیبشلمیٹ کبھی بھی یہ بات تسلیم نہیں کر ے گی کیونکہ اس میں ان کے بھی بہت سے سیاسی و مالی مفادات وابسطہ ہوتے ہیں۔ یہ لوگ تبھی اس طرف مجبور ہوں گے کہ جب عوام کی جانب سے ایک نہایت ہی جان دار اور قوت سے بھر پور آواز اٹھائی جائے گی۔ اس موضوع کو عام عوام میں موضوع بحث بنایا جائے گا۔ یعنی عوام کا دباؤ اس شدید نوعیت کا ہو کہ ہمارے ارباب اختیار بے بس ہوجائیں۔ ان کی سٹریجک ڈیپتھ جہاد اور ملکی سلامتی کی تھیوری بے جان اور غلط ثابت ہو جائے۔ اور اس واسطے ہر پاکستانی کو آواز بلند کرنا ہوگی۔ نہیں تو پھر بیشک قائد اعظم کے پاکستان کو اجڑتا دیکھتے رہیں اور کڑتے رہیں۔ اور تو بظاہر نہ کوئی حل ہے اور نہ ہی کوئی امید۔ لیکن ایک بات یاد رکھیں جب بھی اس موضوع پر ایک غیر جانبدارانہ تحقیق ہوئی آپ کو معلوم ہوگا کہ جنرل اختر رحمان حمید گل جنرل عزیز وغیرہ ہیرو نہیں زیرو تھے۔ اور جنرل ضیاء و مشرف امریکہ کے لے پالک پٹھوتھے۔ fayazsyed111@gmail.com

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں