سپریم کورٹ آف پاکستان اور ملک کی سیاسی جماعتیں آمنے سامنے
میری آواز
کالم نویس/اعجاز احمد طاہر اعوان
پاکستان کی تاریخ کو اگر پلٹ کو دیکھا جائے، تو یہ پہلی بار ہمارے ملک کے اندر ہو رہا ہے کہ ملک کے دو ایسے ادارے ایک دوسرے کے خلاف “جنگی” کیفیت میں آج آمنے سامنے ہیں، دونوں اپنی اپنی جگہ پر اپنی جیت، فتح اور کامیابی کے سنہری خواب، اور سیک دوسرے کو نیچا دکھانے کے خواب دن کی روشنی اور کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں، یہ بھی ایک مسسمم اصول ہے کہ دن میں دیکھے گئے خواب کی کبھی تعبیر سامنے نہی آتی، وہ صرف خواب ہی رہتے ہیں، ان سیادست دانوں کو نہ ہی ملک اور نہ ہی قوم کا کوئی احساس، درد اور ہمدردی ہوتی ہے، صرف اور صرف اپنے ذاتی مفادات، حصول اقتدار کے لالچی اور ہوس پرست ہوتے ہیں، اس وقت ملک کے اندر عجیب قسم کی بے یقینی کی کیفیت، اور زیادہ تر انتشار اور محاز آرائی کی طرف بڑھ رہا ہے، ملک کی اس کیفیت اور انتشار کہاں جا کر رکے گا، کوئی یقین کے ساتھ کچھ نہی کہا جا سکتا، یہ جنگی کیفیت سپریم کورٹ اور ملک کے سیاست دانوں کے درمیان جنگی کیفیت سے عوام کو کیا ملے گا؟ پوری قوم 22 کروڑ سے زائد آبادی والے ملک کی عوام بیحسی سے آخر عوام۔کو کیا ملے گا، دونوں کے کردار اور رسہ کشی کا کیا نے نتیجہ نکلے گا؟ اس وقت سپریم کورٹ کے اندر 50 ہزار سے زائد کیسز پینڈنگ پڑے ہوئے ہیں، اور انصاف کے متلاشی افراد اپنی حسرت بھری نظریں سپریم کورٹ کی طرف لگائے ہوئے ہیں، عدالتوں کو جن جن کیسوں کے فیصلے کرنے تھے اس سیاسی اور عدالتی انتشار کے باعث زیر التواء کیسوں کے فیصلے بھی منجمند ہو کر رہ گئے ہیں، موجودہ بر برسراقتدار حکومت بھی “”ضد”” پر آ گئی ہے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس خطرناک جنگ کا کیا نتیجہ نکلے گا،اور دونوں میں سے اپنی اپنی ہار کون تسلیم کرے گا؟ اس آئینی اور سیاسی کشیدگی کا ملک اور قوم کے مفاد میں نتیجہ کیا ہو گا؟ ملک کے اندر اس وقت آئین اور سیاسی جماعتیں آمنے سامنے آ کر کھڑی ہو گئی ہیں،
اس وقت ملک کے اندر بروقت انتخابات کا سنگین مسلہ بھی سامنے ہے، ملک کے انتخابات کے لئے فنڈز دستیاب نہی ہیں، ملک کے اند سیکورٹی کا خطرہ، اور انتخابات کے لئے حتمیں تاریخ کے اعلان پر متفق، ذرا سوچیں کہ اگر یہ سب بنیادی مسائل کا آج ملک کو سنگین مسلہ درپیش ہے تو یہ کون یقین دلائے گا کہ ملک کے اندر 5 ماہ کے بعد یہ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا، کوئی ایک بھی سیاسی جماعت ملکی اور عوام کے مفاد کے لئے اکھٹا ہونے کے لئے تیار نہی ہے، یہ سیاسی جماعتیں صرف اور صرف قانون کو نیچا دکھانے کی پالیسی کے بارے ہی سوچ رہی ہے، اگر ملک کے یہ سیاست دان مقررہ وقت پر انتخابات کے لئے رضامند نہی ہو سکتے تو ان سب کے لئے اسمبلیوں کے دروازے ہمیشہ کے لئے بند کر دیئے جائیں، اگر آج ملک کے آئین نے اپنی شکست کو تسلیم کر لیا، تو یہ بات حقیقت پر مبنی ہے کہ ملک کے آئین کے ذمےدار کبھی دوبارہ اپنا امیج بر قرار نہی رکھ سکیں گئے، اور پھر نوبت یہ بھی آ جائے ھئی کہ آئین پاکستان اپنی عدالتی ذمہ داریوں کے ترازو کو کبھی انصاف فراہم نہی کر سکے گا، اور ملک کے سب فیصلے اسمبلیوں کے اندر بیٹھے مفاد پرست سیاست دان ہی کریں گئے،
ملک کے اندر موجودہ آئینی بحران پوری دنیا کے اندر ایک سنگین مزاق بھی بن کر رہ گیا ہے اور پاکستان کا وقار بھی بری طرح مجروح ہو رہا ہے، اور سپریم کورٹ آف پاکستان کا وقار بھی ایک سنگین مزاق بن کر رہ گیا ہے، آج یوں محسوس بھی ہونے لگا ہے کہ جیسے موجودہ حکومت اپنی شخصیت کو تسلیم کرنے سے بھی گریزاں ہو ریی ہے، ملک اس وقت خطرناک دھارے کے کنارے ہر آن کھڑا ہوا ہے، آگے تباہی اور بربادی کا گہرا کھڈا ہی نظر آ رہا ہے،
حکومت پنجاب کے غلط وقت پر غلط فیصلے بھی ملکی نظام کے اندر ایک مشکل مقام پر آ کھڑا ہوا ہے، حکومت پاکستان پنجاب کی طرف سے “کچا کے علاقے” میں ڈاکوؤں کے خاتمہ کے لئے اور اس علاقہ کو جرائم سے پاک کرنے کے لئے آپریشن کا سلسلہ شروع کر دیا یے، مگر یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ حکومت پنجاب کی جانب سے اس آپریشن کی اطلاع قبل از وقت بڑے بڑے “”کچا کے ڈاکوؤں “” کو دے دی گئی تھی، اب اگر کوئی آپریشن کی کاروائی کی جا رہی ہے تو وہ چھوٹے چھوٹے ڈاکوؤں کے خلاف کی جا رہی ہے، اگر حقیقت میں مثالی آپریشن ہی کرنا ہے تو وہ “”پکے کے ڈاکووں” کے خلاف اندرون شہر کے اندر بھی بلاآخر کرے، اس آپریشن کی کامیابی کے مقاصد بہت ہی کم نظر آ رہے ہیں، “”کچے کے ڈاکو”” اپنے اصلی ٹھکانوں سے بہت دور اور وقت سے پہلے ہی نکل گئے تےھے، آپریشن سے قبل اس کو خفیہ رکھ بے حد ضروری تھا، اور ہر قسم کی میڈیا کوریج سے بھی بچانا تھا، یہ آپریشن بری طرح ناکام ہوا ہے اور ہو جائے گا، یہ ملک و قوم کو شدید خسارہ کا ہی باعث بنے گا،
اس وقت پورے پاکستان کے عوام سمیت پوری دنیا کے باشندوں کی نظریں سپریم کورٹ آف پاکستان “”عدلیہ”” کے وقار پر لگی ہوئی ہیں، ملک کے اندر سے عدلیہ کی بحالی اور آئین کی پاسداری اور وقار کا سنگین مسلہ کس طرح حل ہوگا، ملک کے اندر انتخابات کی سنگینی کا بھی مسلہ کھڑا ہے، ملک کے معاشی حالات کے پیش نظر نئے انتخابات کا بھی ایک سوال سب کے لئے کھڑا ہے، موجودہ حکومت ملک کے آئین اور سپریم کورٹ کو اپنے مقاصد اور اپنے نیچے رکھنے کی پالیسی پر گامزن ہے، دیکھنا یہ ہے کہ ملک کا آئینی اور سیاسی بحران کہاں پر جا کر رکے گا، اور کسی کو ناکامی کا منہ دیکھنا اور شکست سے دوچار ہونا پڑے گا، کیا یہ آئینی اور موجودہ کشیدگی طوالت اختیار کر جائے گئی؟ اس کے دوران اور دونوں کی چپقلش کے درمیان میں بیچارے عوام ہی پس رہے ہیں، شائد اس مشکل کی گھڑی میں سے اللہ ہی کوئی معجزہ ہی دکھا دے، کہ ملک کو اس آزمائش سے با عزت رخصت کر دے،
اللہ کرے تیرے دل میں اتر جائے میری بات”””
(آمین ثم آمین)