تحریر۔ جویریہ اسد ،پی این پی نیوز ایچ ڈی
گیارہ سال سے میں خواتین کو بااختیار بنانے اور صنفی مساوات حاصل کرنے کے لیے یناٹیڈ نیشنز کے ایس ڈی جی 5 پر کام کر رہی ہوں۔ خواتین کے لیے کام کی جگہوں پر صنفی امتیاز اور ہراسانی سب سے بڑا اور پریشان کن مسئلہ ہے۔ خاص طور پر مردوں کے زیر تسلط صنعتوں جیسے انجینئرنگ،سائنس اینڈ ٹیکنولوجی، سیاحت، فائر اینڈ سیکیورٹی، اور زراعت وغیرہ میں خواتین کے لیے مواقع انتہائی محدود ہیں۔ خواتین کو اکثر ان صنعتوں میں ڈگریاں یا کیریئرز حاصل کرنے کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے اور ان کو ہر سطح پر رکاوٹوں کا سامنا ہوتا ہے۔
حتیٰ کہ میڈیا اور صحافت جیسے شعبوں میں بھی، خواتین کو بڑی رکاوٹوں کا سامنا ہوتا ہے۔ جو خواتین اپنی کامیابیاں اپنے بل بوتے پر حاصل کرتی ہیں اور مخصوص گروہوں یا مرد اتحادیوں پر انحصار نہیں کرتیں، انہیں سخت تنقید اور مرد ساتھیوں کی طرف سے نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ان خواتین کو اکثر بلاوجہ کردار کشی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جہاں بعض افراد ان کی محنت کو تسلیم کرنے کے بجائے ان کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔
ایک واضح دوہرا معیار نظر آتا ہے: جب مرد ساتھی اپنے کام کو بہتر کرنے اور ترقی کے مواقعوں کے لئے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے ہیں تو اسے اتحاد اور ہم آہنگی سمجھا جاتا ہے، لیکن اگر خواتین اسی طرح کام کریں تو ان پر شک کیا جاتا ہے اور افواہوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جو خواتین کسی مخصوص گروہ یا طاقتور شخصیات کا حصہ بننے سے انکار کرتی ہیں، انہیں تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ سوچ کہ ہر عورت کو اپنے کیریئر میں ترقی کے لیے ایک ’گاڈ فادر‘ کی ضرورت ہے، بالکل غلط ہے۔ اگر کوئی خاتون اپنی قابلیت اور علم و ہنر کی بنا پر ترقی کرتی ہے تو یہ اس کی طاقت ہے، لیکن بدقسمتی سے، مردوں کے زیر تسلط معاشرے میں یہ بھی ناقابل قبول ہے۔ بعض مرد خواتین کی صلاحیتوں کو نظرانداز کرتے ہوئے ان کے کردار کو نشانہ بناتے ہیں اور بعض اوقات انتہائ نامناسب گفتگو کے ذریعے اپنے حسد اور بغض کو ظاہر کرتے ہیں۔
یہاں ایک نقطہ بہت اہم ہے، ہر شعبے میں خواتین کے درمیان مضبوط تعاون کی شدید ضرورت ہے۔ یہ ضروری ہے کہ کسی بھی شعبے میں پہلے سے موجود خواتین نوآموز خواتین کا خیرمقدم کریں اور ان کی حوصلہ افزائی کریں۔ بدقسمتی سے، خواتین کا ایک دوسرے کی مدد نہ کرنا اور حسد کرنا ہمارے معاشرے میں خواتین کو بااختیار بنانے کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے، اور اکثر خواتین کو اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں حمایت تلاش کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
میں سب کو قصوروار نہیں ٹھہرا رہی؛ بہت سے قابل احترام مرد ساتھی ہیں جو واقعی خواتین کی محنت اور کامیابیوں کی قدر کرتے ہیں۔ تاہم، ان کی تعداد کم ہے۔ میں اس بات سے بھی انکار نہیں کرتی کہ بہت سی خواتین جو علم و ہنر کے حوالے سے کوئ صلاحیت نہیں رکھتیں وہ کامیابی کے لئےعورت کارڈ کا سہارا لیتی ہیں جس سے مخالف جنس کو ایک غلط تاثّر جاتا ہے اور ان کے برتاؤ کا انداز تمام خواتین کے ساتھ یکساں ہوجاتاہے۔
حقیقی ترقی کے لیے، ہمیں ایک ایسا ثقافتی ماحول پیدا کرنے کی ضرورت ہے جو احترام، برابری، اور مثبتیت پر مبنی ہو، جہاں صنف کی بنیاد پر کسی کے کام کی قدر نہ کی جائے۔ ہر فرد کو اس بات کا حق ہے کہ وہ تعصب سے پاک اپنی محنت اور عزت کے ساتھ اپنے مقاصد حاصل کر سکے اور مشترکہ کامیابی میں اپنا مثبت کردار ادا کرے۔