445

چمچہ گیری۔ ہوشیاری یا فنکاری

چمچہ گیری۔ ہوشیاری یا فنکاری
تحریر۔ جویریہ اسد

چمچےکی تاریخ اتنی ہی پرانی ہےجتنا کےانسانی ارتقاء ۔جیسےجیسے انسان غار سے نکل کرشہر جا پہنچااور اس کے اندر سماجی اور تہذیبی تغیرات رونما ہوۓ ویسے ویسے اس کے کھانےکے انداز میں بھی تبدیلیاں آئیں اور اس نے کھانے پینے کے لئے چمچےکانٹے کا انتخاب کیا۔ اب تویہ عالم ہےکے ہاتھ سے کھانے والے کوجاہل اور چمچے سےکھانے والےکو تہذیب یافتہ کہا جاتا ہے۔ اب ہر جسامت اور ساخت کا چمچہ دستیاب ہےاور ضرورت کی نوعیت کے حساب سے استعمال کیا جاتا ہے۔ اب سوال یہ پیداہوتا ہے کہ اس چمچےاور اس کے استعمال کو لوگوں سےتشبیہ کیوں دی گئ۔ توجناب چمچےکا اپنا توکوئ وجودہوتا نہیں جب تک کہ اسکوکسی برتن میں نہ ڈالا جاۓ۔ دیکھنے میں تو چمچہ برتن کا مددگار ہوتا ہے لیکن در حقیقت وہ اس کوخالی کر دیتا ہےاور بے چارے برتن کو پتہ بھی نیہں چلتا۔ یہی حال کچھ لوگوں کا ہےجوخود زندگی میں اپنا کوئ مقام خود تو نہیں بنا سکتے تو وہ ایسےسہارے ڈھونڈتےہیں جن کی خوشامد کرکے وہ اپنےمقاصد حاصل کرسکیں۔
آپ کی زندگی میں عمومی طور پر دو طرح کے لوگ پاۓ جاتے ہیں، ایک وہ لوگ جو آپ کے قریبی دوست ہوتے ہیں جو کبھی بھی آپ کو بھرے مجمع میں تنقید کا نشانہ نہیں بناتے بلکہ اکیلے میں آپ کی اصلاح کرتے ہیں۔ دو سرے وہ لوگ جو آپ کے مخالف ہوتے ہیں اور آپ کی تضحيک اور تنقید کا کوئ موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ مگر اگر آپ کچھ ایسے لوگوں کو بھی اپنی زندگی میں پائیں جو نہ آپ پر تنقید کریں اور نہ ہی آپ کی اصلاح کریں بلکہ آپ کی تعریفوں کے ایسے پل باندھ دیں کہ آپ خود بھی حیران رہ جائیں تو جان لیں کہ آپ شدید چمچه گیری کا شکار ہو چکےہیں۔ اب فیصلہ آپ کو کرنا ہوگا کےآپ کو کس طرح کے لوگ اپنے ارد گرد چاۂیے۔اگر آپ کو یہ تیسری والی قسم پسند آرہی ہے تو پھر یقینی طور آپ کو اپنا آپ ثّابت کرنے کے لئے محنت اور لگن سے زیادہ ان چمچوں پر اعتبار ہے۔جو آپ کی جھوٹی تعريف کرکے آپکو چنے کے جھاڑ پر چڑھا دیتے ہیں تاکہ وہ آپ کے ذریعے اپنی خواہشات کی تکمیل کر سکیں۔ مگر ایک بات ذہن میں رکھیں کہ چمچہ صرف بھرے برتن کا ساتھ دیتا ہے۔ ایک برتن خالی کرنے کے بعد وہ کسی اور برتن کے ساتھ اپنا تعلق استوار کر لیتا ہے۔ یہ بات بہت چھوٹی سی ہے مگر اگراس بات کی تہہ میں جائیں تو ہمارے لئے ایک بہت بڑا سبق ہے۔
ایڈورڈ ای جونز نے 1964 میں خوشامد پسندی کے بارے میں ایک تھیوری پیش کی جو اتنے برس گزر جانےکے بعد بھی اس انسانی صفت کو ثّابت کرتی ہے۔جونز کے مطابق خوشامدپسندی یعنی sycophancy تین طرح کی ہوتی ہے ،دوسرے کو متاثّر کرنے کے لئے اس کی تقلید، ہاں میں ہاں ملانا اور دوسرے کی جھوٹی تعریف کرکے خود کو نمایاں کرنا۔ ہمارےمعاشرےمیں زیادہ تر دوسری قسم عام ہے جہاں لوگ اپنی راۓ دینے کے بجاۓ دوسروں کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں تاکہ لوگ ان سے خوش رہیں۔
چمچہ گیری کرنا یا اس کو پسند کرنا دونوں ہی ایسے انسانوں کی نشانی ہے جو کم وقت میں بہت کچھ حاصل کرنا چاہتےہیں۔اصول پسند لوگ اپنے زور بازو سے دنیا کو فتح کرنے کا عزم رکھتے ہیں اور بغیر کس چاپلوسی اور خوشامد کے اپنی راہیں تلاش کرتے ہیں۔ دنیا ایسے لوگوں کو مغرور اور بدتمیز جیسے مختلف القابات سے نوازتی ہے مگر میری راۓ میں منافق اور چاپلوس ہونے سے بدتمیز ہونا بہت درجہ بہتر ہے، عقلمندوں کے لۓ اشارہ ہی کافی ہے، کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے،
ہمسے خوشامد کسی کی نہ ہوسکی
اس اعتبار سے بد تمیز مشہور ہیں ہم

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں