Sialkot incident, main accused arrested 290

سیالکوٹ واقعہ، مرکزی ملزم گرفتار، یہ کون ہے

(سٹاف رپورٹ،تازہ اخبار،پاک نیوز پوائنٹ )
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر سیالکوٹ میں توہین مذہب کے الزام میں ایک سری لنکن شہری کی ہلاکت کے کیس میں پولیس نے مرکزی ملزم کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا ہے.
جمعے کو سیالکوٹ میں ایک مشتعل ہجوم نے توہین مذہب کے الزام میں ایک غیر ملکی شہری کو تشدد کر کے ہلاک کرنے کے بعد اس کی لاش کو آگ لگا دی تھی.
پولیس کی مدعیت میں دہشت گردی کی دفعات کے تحت ملزم کے خلاف مقدمہ درج کرلیا گیا ہے.
پنجاب پولیس نے سیالکوٹ واقعہ کے مرکزی ملزم کو گرفتار کرلیا۔ملزم کے خلاف پولیس کی مدعیت میں دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کرلیا گیا ہے۔
ترجمان پنجاب پولیس کے مطابق پولیس نے تشدد کرنے اور اشتعال انگیزی میں ملوث ملزمان میں سے ایک مرکزی ملزم فرحان ادریس کو گرفتار کر لیا ہے۔مرکزی ملزم فرحان ادریس کو ویڈیو میں تشدد کرتے اور اشتعال دلاتے دیکھا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ ملزم نے خود میڈیا پر آکر سری لنکن شہری کے قتل کا اعترافی بیان دیا تھا.
پنجاب پولیس کے ترجمان نے دعویٰ کیا ہے کہ مرکزی ملزم کو مبینہ طور پر ویڈیو میں تشدد کرتے اور اشتعال دلاتے دیکھا جا سکتا ہے.
پولیس ترجمان کا کہنا ہے کہ انھوں نے 100 سے زائد افراد کو حراست میں لے لیا ہے،جن کے کردار کا تعین سی سی ٹی وی فوٹیج سے کیا جا رہا ہے.پولیس کا کہنا ہے کہ دیگر ملزمان کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جارہے ہیں.
اس سے پہلے سیالکوٹ پولیس کے ایک اہلکار نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ ہلاک ہونے والے شہری کی شناخت پریا نتھا کمارا کے نام سے ہوئی ہے۔ یہ سیالکوٹ کے وزیر آباد روڈ پر واقع ایک نجی فیکڑی میں بحثیت ایکسپورٹ مینیجر کے خدمات انجام دے رہے تھے۔
سیالکوٹ میں ہسپتال ذرائع کا کہنا تھا کہ ان کے پاس ایک انتہائی بری طرح جلی ہوئی لاش لائی گئی تھی۔ ان ذرائع کے مطابق ‘لاش تقریباً راکھ ہی بن چکی ہے.
پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ “سیالکوٹ میں مشتعل گروہ کا ایک کارخانے پر گھناؤنا حملہ اور سری لنکن مینیجر کا زندہ جلایا جانا پاکستان کے لیے ایک شرمناک دن ہے۔ میں خود تحقیقات کی نگرانی کر رہا ہوں اور دوٹوک انداز میں واضح کر دوں کہ ذمہ داروں کو کڑی سزائیں دی جائیں گی۔ گرفتاریوں کا سلسلہ جاری ہے.
پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی اس واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے انتہائی شرمناک واقعہ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ ایسے ماورائے عدالت اقدام قطعاً ناقابل قبول ہیں۔


آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف نے کہا ہے کہ اس گھناؤنے جرم کے مرتکب افراد کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے سول ایڈمنسٹریشن کو ہر ممکن مدد فراہم کی جائے۔
اس سے پہلے وزیر اعلیٰ پنجاب کے فوکل پرسن اظہر مشوانی نے ٹویٹ کی تھی کہ سیالکوٹ واقعے میں ملوث 50 درندوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ آر پی او اور کمشنر گوجرانوالہ سیالکوٹ میں ہیں اور انکوائری کر رہے ہیں۔ انکوائری 48 گھنٹے میں مکمل کر لی جائے گی۔ سی سی ٹی وی فوٹیج اور نادار کے پاس چہرے شناخت کرنے والی ٹیکنالوجت کی مدد سے واقعے کے تمام ذمہداران کو پکڑا جائے گا.
سوشل میڈیا پر اس وقت کئی ویڈیوز شیئر کی گئی ہیں جن کے بارے میں دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ وہ سیالکوٹ وزیر آباد روڈ کی ہیں.
ان ویڈیوز میں ایک شخص کی جلی ہوئی لاش کو دیکھا جاسکتا ہے اور کچھ ویڈیوز میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ایک شخص کو جلایا جارہا ہے.
پولیس کے مطابق اس واقعے کی تحقیقات کی جارہی ہیں.
واقعے کے عینی شاید محمد بشیر کے مطابق صبح ہی سے فیکڑی کے اندر یہ افواہیں گرم تھیں کہ پریا نتھا کمارا نے توہین مذہب کی ہے۔ ‘یہ افواہ بہت تیزی سے پوری فیکڑی کے اندر پھیل گئی تھی، جس کے بعد فیکڑی ملازمین کی بڑی تعداد نے پہلے باہر نکل کر احتجاج کیا.
ان کا کہنا ہے کہ احتجاج کے دوران ہی لوگ بڑی تعداد میں دوبارہ فیکڑی کے اندر داخل ہوئے اور پریا نتھا کمارا پر نہ صرف تشدد کیا بلکہ انھیں آگ بھی لگا دی۔
ریسکیو اہلکار مقتول کو بچانے میں ناکام کیوں ہوئے؟
ریسیکو 1122 کے ایک اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ انھیں تقریباً 11:35 منٹ پر وزیر روڈ پر ہنگامہ آرائی کی کال موصول ہوئی تھی، جس کے چند ہی منٹ بعد ٹیم موقع پر پہنچ چکی تھی۔
وہ کہتے ہیں کہ جب ہم وہاں پہنچے تو اس وقت تک پولیس کی نفری کم تھی جبکہ مقتول کو فیکڑی کے اندر تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
امدادی اہلکار کے مطابق ہم لوگ وردی میں تھے۔ لوگ مشتعل تھے۔ ہمارے لیے ممکن نہیں تھا کہ ہم متاثرہ شخص کو کسی بھی طرح کوئی مدد فراہم کرسکیں اور نہ ہی یہ ممکن تھا کہ کوئی مداخلت کریں.
اس دوران وہ لوگ متاثرہ شخص کو تشدد کرتے ہوئے روڈ پر لے آئے تھے.
امدادی کارکن کے مطابق جب متاثرہ شخص کو روڈ پر لایا گیا تو اس وقت تک وہ ہلاک ہوچکا تھا۔ مشتعل لوگوں نے اس شخص کو روڈ پر لا کر نذر آتش کیا اور نعرے بازی کرتے رہے۔ اس دوران پولیس نے مداخلت کرنے کی کوشش کی مگر پولیس کی نفری بہت کم تھی جبکہ مشتعل عوام بہت بڑی تعداد میں تھے.
امدادی کارکن کے مطابق تقریباً ساڑھے بارہ بجے کے قریب ہم لوگ جلی ہوئی لاش کو ہسپتال پہنچانے میں کامیاب ہوئے تھے.
موقعے کے ایک اور عینی شاید کے مطابق فیکڑی ملازمین کا احتجاج بہت دیر تک جاری رہا تھا اور اس احتجاج میں اردگرد کے علاقوں کے لوگ بھی بڑی تعداد میں شامل ہو گئے۔
احتجاج میں کئی لوگوں نے اشتعال انگیز تقاریر کیں تھیں۔ اس دوران مظاہرین میں سے کسی نے نے کہا کہ چلو خود قصہ صاف کرتے ہیں تو اس کے بعد ڈنڈوں، لاٹھیوں اوراسلحہ سے لیس لوگ فیکڑی کے اندر داخل ہو گئے تھے.
سیالکوٹ سے مقامی صحافی یاسر رضا کے مطابق فیکڑی کے اندر صبح ہی سے یہ افواہیں گرم تھیں کہ توہین مذہب کی گئی ہے، ‘جس کے بعد نہ صرف فیکڑی کے اندر سے حالات کشیدہ ہونے کی اطلاعات آرہی تھیں بلکہ ارد گرد کے علاقے کے لوگ بھی مشتعل تھے.

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں