فریاد
شاعرہ : سیدہ نمیرہ محسن شیرازی
فریاد!!!!
مت ستاو
خلق خدا کو
یوم الحساب
آنے کو ہے
کتنا ظلم ہے
جب تم مسکراتے ہو
فتح کا جشن مناتے ہو
اپنے گھروں کے
پرانے
خاندانی
عالیشان برتن
دل لبھانے کو
میزوں پر سجاتے
اور ذائقہ بدلنے کو
کچھ انوکھا کرنے کو
زندگی سے خط اٹھانے کو
لذت کام و دہن بہلانے کو
کیا کرجاتے ہو؟
جانتے ہو
اس کشید مسرت میں
کوئی رگ گل
نشتر کی دھار پر
تڑپ کر رہ گئی ہو گی
کسی بلبل کا نغمہ
اسکے جلتے دل میں
راکھ ہو گیا ہو گا
کیا تم بھول جاتے ہو؟
کہ جب دانت نکوسے
کسی عفریت مانند
تم نے یہ سب جلایا تھا
تو کچھ بھی بچ نہ پایا تھا
اب جب تم فتح کے نشے میں
مخمور
اپنی سیجوں پر لاشے سجاتے ہو
اور لطف اٹھاتے ہو
تو شکوہ مت کرو
کیونکہ
لاشیں مہکا نہیں کرتیں
مردہ نغمے
ہواوں کی بانہوں میں رقص نہیں کرتے
ایسے شمشانوں پر اکثر
بھوت بستے ہیں
اور جب تم
پلٹ کر آتے ہو
قدم رنجہ فرماتے ہو
خدا سے
کچھ نہیں شرماتے ہو
اپنے گناہ بھول جاتے ہو
وہ تم پر ہنستے ہیں
کیونکہ وہ سدا وہیں پہ بستے ہیں
اور
تم پر ہنستے ہیں
نمیرہ محسن
مئی 2024