کیا پاکستان میں تبدیلی لائی جاسکتی ہے ؟ 377

حقیقی آزادی کیوں ؟ ڈاکٹر زین اللہ خٹک

1947 میں پاکستان دنیا کے نقشے پر بطور ایک جغرافیائی ملک نمودار ہوا ۔ لیکن نو سالوں تک کوئی آئین سازی نہ ہوسکی ۔ بمشکل 1956 میں پہلا قانون پاس ہوا ۔ یوں 1956 میں پاکستان کی ایک الگ قانونی تشخیص قائم ہوئی ۔ ان نو سالوں میں اداروں کی تشکیل نہ ہوسکی۔ تخت برطانیہ سے آزادی تو حاصل کی لیکن تخت برطانیہ کی فوج جس نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے ساتھ ملکر ہمیں غلام بنایا تھا۔ جس نے مسلمانوں سے ہزار سالہ حکومت چھینی۔ اس فوج کا لیبل تبدیل کرکے “پاکستانی فوج ‘” بنادیا گیا۔ ہم نے عدلیہ کو تشکیل نہ دیا۔ آج بھی ملک میں انڈیا پینل کوڈ “پاکستان پینل کوڈ” کے نام سے، انڈین کرمینل کوڈ”پاکستان کریمنل کوڈ” ،اور دیگر قوانین جو انگریزوں نے 1858 میں تشکیل دیے تھے۔ صرف لیبل تبدیل کرکے ہم ملک چلا رہے ہیں ۔ افسوس اس بات کا ہے ، کہ ملک کے بانی اور پہلے گورنر جنرل قائد اعظم محمد علی جناح کی پراسرار موت کی آج تک تفتیش نہ ہوسکی ۔ یوں پاکستان جغرافیائی طور پر ملک تو بنا لیکن 75 سالوں میں حقیقی آزادی نہ مل سکی ۔ پاکستان کے ابتدائی ایام میں ایک خاص سازش کے تحت اداروں کی تشکیل کو نہیں ہونے دیا گیا ۔تاکہ پاکستان ایک آزاد اور خودمختار ملک نہ بن سکے ۔ ان موضوعات پر کسی ریسرچ کو بھی نہیں ہونے دیتے ہیں ۔ یہ سوال ہر پاکستانی کا ہے ۔ کہ آخر کیوں پاکستان کو پٹڑی پر چڑھنے نہیں دیا گیا ۔ قائد اعظم کی وفات کے بعد لیاقت علی خان کے زریعے قراداد مقاصد کو لایا گیا ۔ ملک کو فلاحی ریاست کے بجائے ملڑی ریاست کی طرف موڑنے کی کوشش شروع ہوئی ۔ ملکی حکمرانی پر براجمان طبقے نے ملک کو امریکی کالونی میں دھکیل دیا ۔جس کا خمیازہ آج بھی بھگت رہے ہیں۔ پاکستان کو عملاً سوویت یونین کے خلاف میدان جنگ کے طور پر استعمال کرنے کے لیے یہاں جمہوریت کو فروغ نہیں دیا گیا۔ کیوں کہ جمہوریت اور جمہوری ممالک میں یہ ممکن نہیں تھا۔ کہ پاکستان امریکہ کے سوویت یونین کے خلاف جنگ لڑے۔ یہی وہ وجہ ہے۔ جس کی وجہ سے پاکستان کو شروع سے مالیاتی طور پر کمزور رکھا گیا۔ 1956 کا قانون محض دو سال بعد معطل کرکے مارشل لاء نافذ کیاگیا ۔ ان غیر جمہوری روایات کی وجہ سے ملک دولخت ہوگیا ۔ لیکن قوم نہیں اٹھی ۔ کیوں کہ قوم کو اٹھنے نہیں دیا گیا ۔ قوم کو ذہنی غلام بنانے کے لیے نظام تعلیم کے زریعے خوب پروپیگنڈہ کیا گیا ۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد رہی سہی 44 فیصد پاکستان میں سویلین حکومت آئی ۔ امید پیدا ہوئی ۔ لیکن چند سال بعد پھر ایک دفعہ مارشل لاء نافذ کیاگیا ۔ کیوں کہ اب امریکہ بہادر نے سوویت یونین کے خلاف پاکستان کی سرزمین استعمال کرنی تھی اور وہ پارلیمنٹ کی موجودگی میں ناممکن تھی ۔ جنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء لگاکر 1973 کا قانون معطل کر دیا ۔ امریکہ بہادر کی سرپرستی میں پشتون سرزمین پر دنیا بھر سے متشدد اسلامی تنظیموں کی آمد شروع ہوئی ۔ امریکی ڈالروں سے افغانستان کی سرزمین پر یلغار کردیا گیا ۔ جنرل ضیاء الحق کی وفات کے بعد مصنوعی جمہوری حکومتیں بنی لیکن اصل اختیارات کی منتقلی نہ ہوسکی۔ یوں 90 کی دھائی ملک میں بدترین کرپشن ، لاقانونیت اور اقربا پروری جاری رہی ۔ ان حالات میں پاکستان تحریک انصاف 1996 میں ایک تحریک کے طور پر ابھر کر سامنے آئی۔ پاکستان تحریک انصاف ملک میں حقیقی آزادی کے لیے سرگرم عمل ہیں ۔ آج ملک میں حقیقی تبدیلی وقت کی ضرورت ہے ۔ ملک میں جمہوریت اور جمہوری اداروں کی بالادستی ، قانون کی حکمرانی اور معاشی مساوات ہر پاکستانی کا مطالبہ ہے ۔ ایک ایسا پاکستان جہاں کسی غریب کو علاج کے لیے گردے نہ بیچنے پڑے ۔ جہاں غریب کے بیٹے کو میرٹ کے نام پر سرکاری ملازمت سے دور نہ رکھا جائے ۔ جہاں پارلیمنٹ کی بالادستی ہو ۔ جہاں خارجہ پالیسی بنانا پارلیمنٹ کا کام ہو ۔ جہاں کی عدالتیں کسی دباؤ کے بغیر کام کریں ۔جہاں آرمی کاکام سرحدوں کی حفاظت و نگرانی ہو ۔ جہاں ہر فیصلہ پارلمینٹ میں ہو۔ جہاں امریکی مداخلت نہ ہو ۔ جہاں ہماری عزت و احترام پر کوئی آنچ نہ ہو ۔ جہاں ملک میں اظہار رائے کی آزادی پر کوئی قدغن نہ ہو ۔ جہاں قانون امیر و غریب کے لیے یکساں ہو۔ جہاں ڈی ایچ اے اور غریبوں کی کالونی میں یکساں سہولیات میسر ہو ۔ جہاں گورنمنٹ کے سرکاری سکولوں میں کیڈٹ کالجز طرز تعلیم میسر ہو ۔جہاں سی ایم ایچ کی طرز پر صحت کی سہولیات ہر گاوں ودیہات میں میسر ہو ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں