23 مارچ کو لاہور کے منٹو پارک میں آل انڈیا مسلم لیگ کے تین روزہ سالانہ اجلاس کے اختتام پر وہ تاریخی قرار داد منظور کی گئی تھی.جس کی بنیاد پر مسلم لیگ نے برصغیر میں مسلمانوں کے جدا وطن کے حصول کے لئے تحریک شروع کی تھی اور سات برس کے بعد اپنا مطالبہ منظور کرانے میں کامیاب رہی.
قرارداد کا اردو ترجمہ مولانا ظفر علی خان نے کیا۔ اس کی تائید میں خان اورنگ زیب خان، حاجی عبداللہ ہارون، بیگم مولانا محمد علی جوہر، آئی آئی چندریگر، مولانا عبدالحامد بدایونی اور دوسرے مسلم اکابرین نے تقاریر کیں.
تقاریر کے بعد مسلمانوں کےلیےعلیحدہ وطن کی قرارداد منظور کرلی گئی جسے قرارداد لاہور کا نام دیا گیا۔ بیگم محمد علی جوہر نے تقریر میں قرارداد کوپہلی بارقرارداد پاکستان کہا.
قرارداد میں کہا گیا تھا کہ ہندوستان کےوہ علاقے جو مسلم اکثریتی اورجغرافیائی طور پر ایک دوسرے سے جڑے ہیں ان کی حد بندی ایسے کی جائے کہ وہ خود مختارآزادمسلم ریاستوں کی شکل اختیار کرلیں.
قرارداد کے مطابق جن علاقوں میں مسلمان اقلیت میں ہیں وہاں انہیں آئین کے تحت مذہبی، قافتی، سیاسی، اقتصادی، انتظامی اور دیگر حقوق و مفادات کے تحفظ کی ضمانت دی جائے کیونکہ ہندوستان کا موجودہ آئین مسلمانوں کے حقوق پورے نہیں
برصغیر میں برطانوی راج کی طرف سے اقتدار عوام کو سونپنے کے عمل کے پہلے مرحلے میں 1936/1937ء میں جو پہلے عام انتخابات ہوئے تھے ان میں مسلم لیگ کو بری طرح سے ہزیمت اٹھانی پڑی تھی اور اس کے اس دعوی کو شدید زک پہنچی تھی کہ وہ بر صغیر کے مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت ہے۔ اس وجہ سے مسلم لیگ کی قیادت اور کارکنوں کے حوصلے ٹوٹ گئے تھے اور ان پر ایک عجب بے بسی کا عالم تھا.
کانگریس کو مدراس، یو پی، سی پی، بہار اور اڑیسہ میں واضح اکثریت حاصل ہوئی تھی۔ سرحد اور بمبئی میں اس نے دوسری جماعتوں کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت تشکیل دی تھی اور سندھ اور آسام میں بھی جہاں مسلمان حاوی تھے کانگریس کو نمایاں کامیابی ملی تھی۔پنجاب میں البتہ سر فضل حسین کی یونینسٹ پارٹی اور بنگال میں مولوی فضل الحق کی پرجا کرشک پارٹی کو جیت ہوئی تھی۔ ہندوستان کے 11 صوبوں میں سے کسی ایک صوبہ میں بھی مسلم لیگ کو اقتدار حاصل نہ ہو سکا۔ ان حالات میں ایسا محسوس ہوتا تھا،کہ مسلم لیگ برصغیر کے سیاسی دھارے سے الگ ہوتی جارہی ہے۔اس دوران کانگریس نے اقتدار کے نشے میں ایسے اقدامات کئے، جن سے مسلمانوں کے دلوں میں خدشات اور خطرات نے جنم لینا شروع کردیا۔ مثلاً کانگریس نے ہندی کو قومی زبان قرار دے دیا، گاؤ کشی پر پابندی عائد کردی اور کانگریس کے ترنگے کو قومی پرچم کی حیثیت دی.
اس صورت میں مسلم لیگ کی قیادت میں یہ احساس پیدا ہورہا تھا کہ مسلم لیگ اقتدار سے اس بناء پر محروم کر دی گئی ہے کہ وہ اپنے آپ کو مسلمانوں کی نمائندہ جماعت کہلاتی ہے۔ یہی نقطہ آغاز تھا مسلم لیگ کی قیادت میں دو جدا قوموں کے احساس کی بیداری کا۔اسی دوران دوسری جنگ عظیم کی حمایت کے عوض اقتدار کی بھر پور منتقلی کے مسئلہ پر برطانوی راج اور کانگریس کے درمیان مناقشہ بھڑکا اور کانگریس اقتدار سے الگ ہوگئی تو مسلم لیگ کے لئے کچھ دروازے کھلتے دکھائی دئے۔ اور اسی پس منظر میں لاہور میں آل انڈیا مسلم لیگ کا 3 روزہ اجلاس 21 مارچ1940ء کو شروع ہوا.
اجلاس سے 4 روز قبل لاہور میں علامہ مشرقی کی خاکسار جماعت نے پابندی توڑتے ہوئے ایک عسکری پریڈ کی تھی جس کو روکنے کے لئے پولیس نے فائرنگ کی اور 35 کے قریب خاکسار جاں بحق ہوگئے تھے۔ اس واقعہ کی وجہ سے لاہور میں زبردست کشیدگی تھی اس وقت پنجاب میں مسلم لیگ کی اتحادی جماعت یونینسٹ پارٹی برسراقتدار تھی اور اس بات کا خطرہ تھا کہ خاکسار کے بیلچہ بردار کارکن، مسلم لیگ کا یہ اجلاس نہ ہونے دیں یا اس موقع پر ہنگامہ برپا کریں۔موقع کی اسی نزاکت کے پیش نظر قائداعظم محمد علی جناح نے افتتاحی اجلاس سے خطاب کیا، جس میں انہوں نے پہلی بار کہا کہ ہندوستان میں مسئلہ فرقہ ورارنہ نوعیت کا نہیں ہے، بلکہ بین الاقوامی ہے ،یعنی یہ دو قوموں کا مسئلہ ہے۔ ہندوؤں اور مسلمانوں میں فرق اتنا بڑا اور واضح ہے کہ ایک مرکزی حکومت کے تحت ان کا اتحاد خطرات سے بھر پور ہو گا۔ اس صورت میں ایک ہی راہ ہے کہ ان کی علیحدہ مملکتیں ہوں.
دوسرے دن انہی خطوط پر 23 مارچ کو بنگال کے وزیر اعلی مولوی فضل الحق نے قرار داد لاہور پیش کی، جس میں کہا گیا تھا کہ اس وقت تک کوئی آئینی پلان نہ تو قابل عمل ہوگا اور نہ مسلمانوں کو قبول ہوگا، جب تک ایک دوسرے سے ملے ہوئے جغرافیائی یونٹوں کی جدا گانہ علاقوں میں حد بندی نہ ہو۔ قرار داد میں کہا گیا تھا کہ ان علاقوں میں جہاں مسلمانوں کی عددی اکثریت ہے جیسے کہ ہندوستان کے شمال مغربی اور شمال مشرقی علاقے، انہیں یکجا کر کے ان میں آزاد مملکتیں قائم کی جائیں ،جن میں شامل یونٹوں کو خود مختاری اور حاکمیت اعلی حاصل ہو.
ظفر علی خان، سرحد سے سردار اورنگ زیب سندھ سے سر عبداللہ ہارون اور بلوچستان سے قاضی عیسی نے کی۔ قرارداد23مارچ کو اختتامی اجلاس میں منظور کی گئی۔اپریل 1941ء میں مدراس میں مسلم لیگ کے اجلاس میں قرارداد لاہور کو جماعت کے آئین میں شامل کر لیا گیا اور اسی کی بنیاد پر پاکستان کی تحریک شروع ہوئی۔ لیکن اس وقت بھی ان علاقوں کی واضح نشاندہی نہیں کی گئی تھی جن پر مشتمل علیحدہ مسلم مملکتوں کا مطالبہ کیا جارہا تھا. پہلی بار پاکستان کے مطالبے کے لئے علاقوں کی نشاندہی 7 اپریل 1946ء دلی کی تین روزہ کنونشن میں کی گئی، جس میں مرکزی اور صوبائی اسمبلیوں کے مسلم لیگی اراکین نے شرکت کی تھی۔ اس کنونشن میں برطانیہ سے آنے والے کیبنٹ مشن کے وفد کے سامنے مسلم لیگ کا مطالبہ پیش کرنے کے لئے ایک قرارداد منظور کی گئی تھی جس کا مسودہ مسلم لیگ کی مجلس عاملہ کے دو اراکین چوہدری خلیق الزماں اور حسن اصفہانی نے تیار کیا.
قرارداد کی منظوری سے قیام پاکستان کے دوران قائد اعظم نے کئی سیاسی معرکے سر کئے، جواہر لال نہرو اور گاندھی جی نے قائد اعظم سے متعدد مذاکرات کئے۔ مارچ 1942ء میں اسٹیفورڈ کرپس نے قائد اعظم اوردوسرے رہنماؤں کے ساتھمطالبۂطویل مذاکرات کئے ۔ ان تمام مذاکرات میں قائد اعظم پاکستان کے حوالے اپنے موقف سے ذرا پیچھے نہ ہٹے۔ آخر کار حکومت برطانیہ مطالبہ پاکستان کی قائل ہو گئی اور اس نے 3 جون 1947ء کو اپنے فیصلے کا اعلان کر دیا۔ یہ فیصلہ برطانیہ کے آخری وائسرائے ہند نے سنایا اس کے مطابق حکومت برطانیہ برصغیر ہند کو آزاد کرنے کا ارادہ کر چکی تھی اور ملک ہندو مسلم اکثریتی علاقوں میں منقسم ہو گا۔ قائد اعظم نے اس فیصلے کا خیرمقدم کیا اور مسلم لیگ کونسل نے ان کی تائید کے بعد اس فیصلے کے مطابق 14 اگست 1947ء(27 رمضان المبارک 1320ھ) سے پاکستان آزاد ہوا اور اس سے اگلے روز بھارت.
23 مارچ 1940ء کی قرارداد کی تکمیل 14 اگست 1947 کو ہوئی اور پاکستان کے مسلمان اپنے سیاہ و سفید کے مالک ہو گئے، ورنہ وہ ہمیشہ ہندو اکثریت کے زیر فرمان رہتے.
231