نمیرہ محسن 180

کوئین میری ملکہء لاہور

نمیرہ محسن: پی این پی نیوز ایچ ڈی

اگست سے کالج آباد ہوتے اور ہم بورڈنگ والے اپنے گھروں سے بوریا بستر گول کر کے ہاسٹل کے انگریزوں کے زمانے کے بنےعظیم الشان اور اداس کمرے بسانے آ وارد ہوتے۔ ہمارے کمرے کو ایک خاص اور وسیع بالکونی بھی ملی ہوئی تھی۔ جہاں گرمیوں میں ہم شام کو کتابیں لیے کونوں میں بیٹھے مغرب تک پڑھتے رہتے۔ ایک پرانا پیپل بھی اس بالکونی میں سر ڈالے ہمارے بالوں کو سہلاتا رہتا۔ سرخ اینٹوں کے بنے جھروکوں پر ایک سبز رنگ کی ریلنگ فرنگیوں کے زمانے سے پڑی سستا رہی تھی۔ اس کی جالیوں پر بڑے ہی پیارے پھول بوٹے کھدے تھے۔ میں اکثر ان پر آنکھیں بند کر کے چاندنی راتوں میں انگلیاں پھیرتی رہتی اور یوں لگتا کہ وہ بیلیں میرے سر پر بالوں کے گرد اک تاج کی صورت میں پھیل رہی ہیں۔ وہاں ہماری ایک بہت ہی سادہ، پیاری اور حافظ قرآن روم میٹ تھی۔ وہ روم میٹ کم اماں کا کردار ذیادہ ادا کرتی تھی۔ اسی وقت جب یہ سارا طلسم مجھ پر طاری ہوتا وہ دشمن جاں کہیں سے نمودار ہوتی اور میرا ہاتھ پکڑ کر ڈانٹتی ہوئی کمرے میں لے جاتی۔اس کا ایک تکیہ کلام تھا” ہے نا بری بدتمیز! سوہنی کڑیوں کو چاند کا موہ مار دیتا ہے۔ نہ نکلا کر باہر ان بالوں کو لے کر۔ کوئی ہوائی چیز لگ جائے گی۔” اور میں اسے دیکھتی رہتی کہ میں بال اندر رکھ کر باہر کیسے جاوں؟ اور میرا بچپن تو ابو کے ساتھ آدھی راتوں کو (کبھی جب ابو ساتھ لے جاتے )جنگلوں میں شکار اور تارے گنتے گزرا ہے۔ میں تو خود شاید ہوائی چیز بن چکی ہوں۔ بہر حال اس کا میرے لیے تڑپنا اور میری رکھوالی کرنا مجھے بہت اچھا لگتا تھا۔
آج بھی مجھے اس بے لوث دوست کی تلاش ہے اس زندگی میں نہ سہی تو جنت الفردوس میں تو ضرور ملیں گے۔
ستمبر کا آدھا مہینہ گزرتے ہی لاہور کی ہوا میں خزاں کی اک عجیب سی مہک پھیل جاتی۔ شملہ پہاڑی سے آوارہ خرام ہوا کوئین میری کی دیواروں پر رقص کرتی۔ لمبے اور وسیع گھاس کے میدان پت جھڑ کے استقبال میں شمع کی آخری لو کی مانند خوب سبز ہو کر اور بھی مہکنے لگتے۔
آج میں اپنے ” گرین ڈوم” کا قصہ ہی کہوں گی۔ رات کو اسی بالکونی پر آسمان اپنا بھیگا بھیگا دل برساتا۔ ہمارے کالج کی دائیں جانب دولتانہ ہاوس تھا اور اس کے بغل میں قبرستان۔ ایک کالی بڑی سے کار آتی اور سر شام دولتانہ ہاؤس کا گیٹ بند ہو جاتا۔ میرے پڑھائی کی میز کیےسامنے ایک کھڑکی تھی جس میں میرا دوست الو رات عشا کے بعد کبھی بھی آجانا اور مجھے پڑھتا دیکھتا۔ سب کہتے تھے کہ یہ میری آنکھیں نکال دے گا مگر نہ تو اس نے کبھی میری طرف قدم بڑھائے اور نہ ہی میں نے کبھی یہ گستاخی کی۔
رات کے گہرے ہوتے ہی سامنے والی سڑک پر اکیلے اداس کھمبے کی زرد روشنی میں کئی کہانیاں فلم کی ریل کی مانند چلتیں۔ ساتھ کے قبرستان سے گھنگھرووں کی آواز آتی۔ کوئی قوالی بھی سنائی دے جاتی۔ سب لڑکیوں کا خیال تھا کہ قبرستان میں کوئین میری کی پرانی بدروحیں دھمال ڈالتی ہیں۔ وائے خوش نصیبی کہ والد محترم نے عقیدہ وحدانیت اور موت سے متعلق درست عقائد اوائل عمری ہی سے ہمارے ذہنوں میں ڈال دیے تھے تو میں ان خرافات پر بالکل بھی یقین نہیں رکھتی تھی۔
ہاسٹل کے ایک باورچی جنہیں میں لطیف چچا پکارتی تھی بہت محبت والے تھے۔ زندگی نے موقع دیا تو ان کے بارے بھی لکھوں گی۔انہوں نے مجھے بتایا کہ جو مر گئے ان بے بس بدنصیبوں نے کیا کسی کو ڈرانا بیٹی؟ یہ تو ملنگ ہیں جو رات کو اس شہر خموشاں میں جوا بھی کھلاتے ہیں اور بھنگ گھوٹ کر نشہ کرتے اور کراتے ہیں۔ یہ گھنگھرو کسی کے پیر میں نہیں بلکہ اس لکڑی کے ڈنڈے پر بندھے ہوتے ہیں۔
اکتوبر میں ہلکی خوشگوار خنکی گرمی کی رگوں میں ہولے ہولے اترنا شروع ہو جاتی۔ نومبر میں ہوا سردی کی خوشبو سے بوجھل ہونے لگتی۔ ایسے میں چاندنی بھی اپنے جوبن پر ہوتی اور پس منظر میں یہ سب آوازیں۔ پیپل کے پتوں کی چمک اور تنے کی مہک۔ اف! زندگی جنت سی لگتی۔ پھر کیا تھا میں قلم اٹھاتی اور تین خط لکھتی۔ اماں، جو دس خط موصول کر کے ایک ڈانٹ بھرا خط لکھتیں کہ پڑھتی کب ہو؟ دوسرا اپنے محبوب ابو کو جن کے جوابی خط باقاعدگی سے آتے اور ہر خط ایک ادب پارہ اور معلومات کا خزانہ ہوتا۔ پورا ہاسٹل اس خط کو باری باری پڑھتا۔ والد محترم خود بھی باوجود لیہ کے پاس پوسٹنگ کے ایک ہفتہ چھوڑ کر اپنی گاڑی میوہ جات سے بھر کر مجھے ملنے آتے۔ اور تیسرا جان سے پیارے چھوٹے ماموں کو۔ طبیعت مائل ہوتی تو کچھ شاعری بھی سرزد ہو جاتی۔ مڑ کر دیکھتی تو میرا دوست سفید الو مجھے کھڑکی کے اس پار بند کواڑوں سے تک رہا ہوتا۔ میری اس روم میٹ کو پکا شک تھا کہ یہ جن ہے جو مجھ پر عاشق ہو چکا ہے۔ کیونکہ بقول اسکے لاہور میں سفید الو نہیں پائے جاتے تھے۔
آدھی رات کو کوئی منچلا خوب ریس دے کر موٹر بائیک پر اس دور کی فلموں کا کوئی پسندیدہ گانا اپنے پھیپھڑوں کی طاقت کو بھرپور آزماتے ہوئے تڑپ تڑپ کر گاتا گزر جاتا۔ پھر کوئی رکشہ بھی چیختا چلاتا گزر جاتا۔ ۔میری روم میٹ سوتے میں اسکو اپنے تکیہ کلام سے نوازتے ہوئے فضیحت دیتیں ، کروٹ بدلنے سے پہلے آنکھوں سے اپنا دوپٹہ اٹھا کر مجھے گھور کر دیکھتیں اور سونے کی تاکید کرتے ہی فوراً سوجاتیں۔ رات کے بھیگتے ہی تانگے میں جتے گھوڑے کے ٹاپوں کی چمکتی نیلی سڑک پر ٹک ٹک بھیدوں بھری رات لیے میرے سینے سےآ لپٹتی۔
تب رات کے نو بجے آدھی رات لگتی تھی۔ کیونکہ ہوسٹل کی تمام بتیاں ساڑھے سات ہی گل کر دی جاتی تھیں۔ میرے پیپل کے ساتھ والا لیمپ جلتا رہتا۔ بالکونی میں جاتی تو ہوا کی سرگوشیاں کانوں میں رس گھولتیں اور بالوں میں اسکی نرم پوریں مدھم خنکی لیے بہتی جاتیں۔ اب میں یہاں یہ بالکل بھی نہیں کہوں گی اب تو سب بدل گیا ہے کیونکہ میری دوستی اور حسیات میرے ان تمام دوستوں کو یونہی پہچانتے ہیں۔ چاند کا موہ اب بھی مجھے اسی شدت سے دیوانہ کرتا ہے۔ خوشبو بھی وہیں ہے مگر مجھے رات کو تکیے پر سر رکھ کر ماں کے دوپٹے کی مہک نہیں آتی۔ مجھے اب امید نہیں کہ کہ ابا اس ہفتے کو ملنے آئیں گے۔ اور ہم ڈھیر ساری باتیں کریں گے۔ بہت سے ارادے اور وعدے ہوں گے۔
بس اب ان یادوں میں کچھ آنسووں کے سمندر گھل گئے ہیں۔ جنکی تلخی ان دوستوں کے قرب کی مٹھاس کو کچھ ترش کر دیتی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں