ضروری نہیں کہ قتل صرف ہتھیار سے کیا جائے۔ ذیادہ تر قتل رویوں سے کیے جاتے ہی۔
جب آپ کسی کو بزدل کہیں، اپنی اولاد کو اپنی امید کیمطابق نتائج نہ لانے پر شرم دلائیں۔ اگر آپ کا بچہ آپ کی ذہنی سطح سے (آپکے خیال میں) کم ہے، کم شکل یا کم رنگ ہے۔ وہ اوروں کی طرح نہیں ہے اور آپ اس بات پر خود سے شرمندہ ہونے کی بجائے اس کو کٹہرے میں کھڑا رکھتے ہیں۔ اس کو دل دکھانے کیا چیر دینے والی باتیں کہتے ہیں تو معذرت کے ساتھ ، آپ اسے آہستہ آہستہ قتل کر رہے ہیں۔
اگر آپکی بیوی آپ پر اعتبار نہیں کرتی تو ان عوامل پر غور کریں نہ کہ اسے ذہنی معذوری کا گمان دلائیں۔
اپنے ساتھی کارکن کی غلطیاں پکڑ کر ان کو محفل میں نیچا دکھانے سے باز رہیں۔
اگر کسی کو اللہ نے مخنث بنایا ہے تو آپ کو کیا حق ہے کہ اس خاندان کو برا سمجھیں یا ان سے سماجی بے رغبتی دکھائیں۔ اللہ کی بانٹ پر انگلیاں اٹھانا چھوڑ دیں اور جتنا آپکی جھولی میں ڈالا گیا ہے اس پر راضی رہئیے۔
کیا عجب ہو کہ روز محشر، بہت سی خودکشیوں کے ذمہ دار آپ نکلیں۔قاتلوں کی قطار میں آپ کو بھی کھڑا کیا جائے!
اس لیے کہ اللہ کا ترازو صرف انصاف تولتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث کو سمجھیے جس میں ان کا حکم ہے کہ” اچھی بات کہہ ورنہ خاموش رہ”۔
قرآن پاک میں بھی اللہ رب العزت کا فرمان ہے کہ ” اچھی بات کرو”۔
ان شا ءاللہ بشرط زندگی بہت جلد اس پر آپ سے روبرو بات ہو گی۔
سوچتے رہئیے، الجھنیں کھولتے رہئیے اور سنورتے رہئیے۔
433