Political leadership is patient 151

سیاسی قیادت صبر و برداشت

تحریر ؛ سید فیاض حسین گیلانی ؛ سیاسی قیادت‛ صبر و برداشت ؛؛
سیاسی جماعتوں کی بنیاد جہموریت واسطے ہوتی اور جہموریت کی بنیاد صبر اور برداشت پر ہوتی ہے۔ وہ سیاسی شخصیت یا جماعت کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی کہ جو برداشت اور صبر سے مبرا ہو۔ کیونکہ سیاسی جماعتیں کوئی ڈسپلن محکمہ یا ادارہ نہیں ہوتی کہ جہاں تنخواہ دار ملازم ہوتے ہیں اور ان کی ایک متعین جگہ و دائرہ کار ہوتا ہے۔ بہرحال میری آج کی تحریر اپنے ان سیاسی عہدیداران واسطے ہے کہ جو سیاسی سوالات کو ذاتی تنقید کسی جماعتی اعتراض کو شرارت کا شاخسانہ یا کسی کارکن کے سوال کو شخصی حوالے سے دیکھ کر اسکو اپنی ذات کرسی یا دائرہ اختیار میں مداخلت سے تعبیر کرتے ہیں۔ ویسے تو اسلامی تاریخ سے لیکر جدید دور کی جہموریت تک میں درجنوں مثالیں لکھ سکتا ہوں۔ بلکہ پاکستان کی سیاسی و آمرانہ دونوں طرح کے حکمرانوں کے بیسیوں واقعات لکھ سکتا ہوں۔ لیکن مختصر طور پر یہاں چند ایک واقعات لکھنا چاہتا ہوں جو میرا ذاتی تجربہ ہیں۔ اور ان تجربات کو لکھنے سے پہلے ایک بات لکھ دوں مرحوم نذر حسین کیانی جو شاید واحد انسان تھے کہ جو حکومتی جماعت پی پی کے بھٹودور میں چیف وہپ تھے قومی اسمبلی میں اور ویگن پر اسمبلی ہال جائے کرتے تھے۔ وہ میرے سیاسی استاد تھے اور انہیں سے میں سیکھا کہ جہموری جماعتوں میں تنقید کی اہمیت نہ صرف بہت ذیادہ ہونی چاہئے بلکہ تنقید ہی آپ واسطے بہتری کی روش لاتی ہے۔ بہرحال اب چند واقعات قارئین کی نظر۔ پہلا واقعہ جہاں سے مجھے یہ سمجھنے کی شروعات ہوئی یہ ضیاء الحق کا مارشل لاء تھا۔ محترمہ بینظیر بھٹو نظر بند کر دی گئی ہم نے طلباء کی ریلی نکالی جس پر کریک ڈاون ہوا۔ ہم بھاگ گئے اور چھپ کر دوبارہ اگٹھا ہونے کا پروگرام بنایا۔ لیکن ہمارے پاس کھانے کے پیسے نہ تھے اب طلباء کی ہمت جواب دے گئی تھی سو ہم خاموشی سے گھروں کو چلے گئے۔ اگلے دن مرحوم ریاض السلام نے ہمیں سخت سست کہا کہ تم کر نہیں سکتے تھے تو تماشہ کیوں بنایا ہماری بے عزتی ہوئی۔ سب شرمندہ و خاموش تھے میں پھٹ پڑا اور کہا آغا صاحب آپ کی بیعزتی بنتی ہے آپ کو یہ خیال نہیں تھا کہ کالج کے لڑکے ہیں جن کے پاس پانی کی سہولت نہیں تو کیسے کرتے۔ کاش آپ چند سو روپیہ ہمیں دیتے تا کہ ہم کچھ کرنے کی ہمت کر لیتے۔ خالی اس ٹھنڈے کمرے میں بیٹھ کر ہدایت دینا آسان ہے۔ ذراء اپنے بیٹے کو کل بھیجنا اس صورت حال میں ہم ساتھ رہیں گے۔ آغا صاحب بہت نفیس انسان تھے میری بات سن کر ان کے چہرے کا رنگ سرخ ہوگیا میں نے غنیمت جانی اور بھاگ کر کیانی صاحب کے پاس آگیا پروفیسر اسد بھی وہاں تھے میں نے آکر سب کیانی صاحب کو بتایا.کیانی صاحب مسکرائے اور کہا بالکل صیح کیا تم نے۔ میں نے کہا سر اب اپنی تو چھٹی ہی سمجھوں کیانی صاحب نے قہقہ لگایا اور کہا بالکل نہیں اب آغا تمھاری سب باتیں مانے گا۔ اور انہوں نے وہی سے آغا صاحب کو پیغام دیا کہ جلدی حل کرو اس مسلے کو وگرنہ تمام باتیں جہانگیر بدر صوبائی صدر تک پہنچ جائیں گی۔ آغا صاحب نے معذرت کی اور مجھے کہا او مصیبت اگلی دفعہ میں انتظام کروں گا۔ اب دوسرا واقعہ سن لیں۔ یہ پنڈی کنونشن سینٹر ہے محترمہ بینظیر بھٹو بطور وزیر اعظم وہاں موجود ہیں۔ میں معمولی بندہ ہوں۔ انہیں دنوں حسین حقانی جو محترمہ کی کردار کشی کا ماسٹر مائینڈ ہے پی پی میں شامل ہوا ہے۔ میں کھڑا ہو کر شدید تنقید کرتا ہوں کہ حسین حقانی قابل برداشت نہیں میں چار منٹ کی ایک تقریر کر دیتا ہوں جیالے تالیاں بجاتے ہیں سٹیج پر موجود قیادت کے رنگ زرد نظر آتے ہیں لیکن محترمہ کے چہرے پر مسکراہٹ اور سکون۔ میری جذباتی تقریر محترمہ مکمل صبر و برداشت سے سنتیں ہیں اور جب میں خاموش ہوتا ہوں تو محترمہ ایک جملہ بولتی ہیں کہ آپ کے صیح اور ہمدردانہ جذبات کا شکریہ آپ کے سوال کا جواب دیا جائے گا۔ تقریب ختم ہوتی ہے وزیراعظم اندر چلی جاتی ہیں اور ہم باہر واسطے نکلتے ہیں کہ ایک سیکورٹی والا میرا بازوں پکڑکر کہتا آپ ایک منٹ تشریف لائیں میں گھبرا جاتا ہوں کہ شاید وزیراعظم میرے خلاف کچھ کرنا چاہتی ہیں لیکن دروازے پر محترمہ کھڑی ہیں اور کہتی ہیں میری ایک اہم میٹنگ ہے آپ فوزیہ حبیب سے مل کر جائیں۔ اور پھر محترمہ فوزیہ حبیب مجھے بتاتی ہیں کہ آپ کے جذبات درست۔ لیکن حسین حقانی کوئی سیاستدان نہیں بلکہ پروفیشنل ٹیکنو کریٹ ہے۔ سو پہلے نواز شریف کے کہنے پر وہ ہماری کردار کشی کرتا تھا اب وہ وہی کام ہمارے واسطے کرے گا۔ واقعہ نمبر 3- میں دو ہزار چودہ کے دھرنے میں اس وقت کے مقبول ترین لیڈر جناب عمران خان سے ملنے جاتا ہوں۔ میں جماعت میں شامل ہونے والے کچھ روایتی سیاستدانوں کے حوالے سے تحریک انصاف پر شدید تنقید کرتا ہوں مرحوم نعیم الحق مجھے کہتے ہیں کہ آپ کس حثیت میں یہ کہہ سکتے ہیں۔ یہ سن کر خان صاحب ایک دم بول پڑھتے ہیں نہیں نعیم یہ ہمارے اصل ٹائیگرز ہیں۔ پھر خان صاحب مجھے مکمل صبر اور دلیل سے یہ کہتے ہیں کہ یہ ہماری مجبوری ہے لیکن آپ کے اعتراض و تنقید کا شکریہ۔ایک اور واقعہ رنگ روڈ پر ہم اسکے نقشے اور خاص کر قیمتوں پر اعتراض کرتے ہیں۔ اسی سلسلے میں میں وفاقی وزیر جناب سرور خان سے ملنے جاتا ہوں۔ وفاقی وزیر کے دفتر میں بیٹھ کر میں نہ صرف حکومت بلکہ سرور خان صاحب کی ذات پر شدید تنقید کرتا ہوں۔ وہاں چند دوسرے اشخاص بھی ہیں لیکن سرور خان نہایت صبر سے مجھے سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس منصوبہ میں ان کا کوئی مفاد نہیں اور وہ کوشش کریں گے کہ ہمارے تحفیضات کو حل کیا جائے۔ اور اس طرح کے اور درجنوں واقعات اور اگر میں ذاتی تجربات سے ہٹ کر وہ واقعات بھی شامل کروں کہ جو میں نے نذر کیانی سے لیکر رحمان ملک تک جنرل حمید گل سے لیکر ارشاد حقانی تک سے سنے تو شاید دس کتابیں لکھی جا سکتی ہیں۔ آخری واقعہ ایک آمر جنرل ضیاء الحق بارے مجھے ایک دفعہ مجید نظامی کے منہ سے یہ سننے کا موقع۔ دراصل نظامی صاحب بارے یہ مشہور تھا کہ وہ ضیا الحق کے کافی قریب ہیں سو کسی نے سوال کیا کہ ضیاء کی سب سے بہترین خوبی کیا تھی تو نظامی صاحب نے کہا کہ ضیاء الحق مکمل سیاستدان بن گئے تھے اور خود پر تنقید کو سیاستدانوں سے بہت ذیادہ برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ بہرحال میں ثابت یہ کرنا چاہتا ہوں کہ سیاست نام ہے جہموریت کا اور جہموریت کی جڑ صبر اور تنا برداشت ہوتا ہے۔ اگر آپ میں برداشت اور صبر نہیں ہے تو پھر آپ بیشک اچھے جنرل بہترین بیورو کریٹ اعلی پائے کے صحافی کھلاڑی فن کار سائنس دان وغیرہ تو بن سکتے ہیں لیکن اچھے سیاستدان کبھی نہیں بن سکتے۔اور اس کا ایک اور پہلو بھی قابل غور ہے اور وہ یہ کہ سیاست نام ہے لوگوں کو مطمن اور قائل کرنے کا۔ اب آپ لوگوں کو مطمن اور قائل تبھی کر سکتے ہیں کہ جب آپ ان کو ان کی اہمیت کا احساس دلائیں ان کو عزت دیں۔ وگرنہ اگر آپ غیر ضروری طور پر جذباتی ہوں گے اور اگلے کو بیعزت کریں گے تو وہ آپ کا ذاتی ملازم تو ہوتا نہیں وہ کیوں آپ کو برداشت کرے گا۔ دوسرا اچھے سیاستدانوں میں یہ خوبی بھی ہوتی ہے کہ وہ تنقید کو اس طرح لیتے ہیں کہ ممکن ہے اس تنقید سے ان کو کچھ اور فیصلے کرنے میں آسانی ہو۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ تنقید کرنے والا ان کے مقابل معاشرتی یا سیاسی طور پر کوئی اہمیت نہیں رکھتا وہ ان کا نہ تو متبادل ہے نہ مقابل تو پھر کیوں نا مثبت سوچ کے ساتھ اس کو سنا جائے اگر اس تنقید سے اور کوئی بہتر نتیجہ نہ بھی نکلے تب بھی کم از کم وہ ایک شخص جو تنقید کر رہا ہے وہ تو بہرحال ان کیاخلاقیات اور دی گئی عزت سے متاثر ہوگا۔ ہم یہ تمام گزارشات ان سیاستدانوں واسطے لکھ رہے ہیں کہ جو سیاست کرنے کے شوقین تو ہیں لیکن سیاست کی بنیادی اقدار سے انجان ہیں وہ اپنے سیاسی عہدے کو کسی گورنمنٹ کے محکمعہ کی طرح لیتے ہیں جو ان پر تنقید کرے وہ اسکو بطور ایک رائے کے لینے کے بجائے یا تو شخصی حملہ سمجھ لیتے ہیں یا اپنے عہدے اور کرسی کی توہین اور ایک بات یاد رکھیں ایسے لوگ سیاست میں مکمل طور پر ناکام ہو جاتے ہیں۔ اور اسکی پاکستان کی حد تک دو بڑی مثالیں ہیں۔ ایک مرحوم اصغر خان جو قابلیت و عوامی مقبولیت کی معراج پر تھے لیکن اپنے اندر کا ائیر مارشل نہ ختم نہ کر سکے اور ہر اس شخص کو اپنا دشمن بناتے رہے کہ جو ان کی اصلاح کرنے کا متمنی تھا۔ اور ایک دوسرا کردار احمد رضا قصوری۔ مجھے پی پی کے انتہائی سینئیر لوگوں نے یہ بتایا ہے کہ قصوری صاحب کی محنت اور قابلیت سے جناب ذوالفقار علی بھٹو بہت متاثر تھے لیکن ان کی فطرت میں چونکہ صبر و برداشت بالکل نہ تھا اس وجہ سے وہ ہر ایک سے غیر ضروری الجھ پڑھتے تھے اور پھر اسکا منطقی نتیجہ یہ نکلا کہ وہ ناکامی کی سڑک پر کامیابی کا راستہ سمجھ کر چل پڑھے اور آخری منزل جب آئی تو قصوری صاحب کا استقبال ایک بہت بڑی سیاسی ناکامی نے کیاسو اب فیصلہ آپ نے کرنا ہے کہ صیح سیاسی رویہ رکھنا ہے یا پھر تمام تر قابلیت و محنت کے باجود بھی سیاسیت کی بنیاد کو پس پشت ڈال کر خود ہی اپنی سیاسی قبر کا انتظام کرنا ہے۔ ہم بہرحال ہر سیاسی کارکن اور عہدیدار سے بہتری کی توقع رکھتے ہیں۔ نوٹ ؛ بہت سے دوستوں نے میرے کچھ دن قبل ایک تجزیہ کہ جو اسمبلیوں کی تحلیل پر تھا کے غلط ہونے پر خوشی کا اظہار کیا ہے۔ میں اس تجزیہ کے ایک ایک لفظ کا ذمہ دار بھی ہو اور اس پر قائم بھی اسکی تفصیل میں بہت جلد آزادی کے ان اوراق پر لکھوں گا۔ تجزیہ یا خبر بالکل غلط نہ تھی بلکہ ؟ چند دن انتظار کریں۔ fayazsyed111@gmail.com

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں