Personality An Introduction 381

ایک شخصیت ایک تعارف

رپورٹ/اعجاز احمد طاہر اعوان
تعلیم انسان کو آسمان کی بلندیوں پر پہنچا دیتی ہے،
اساتذہ طلباء کے روحانی باپ کا درجہ رکھتے ہیں
تعلیم یافتہ افراد ہی ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرتے ہیں
” لودھراں” مسائل کی آماجگاہ بن گیا ہے
اندرون شہر ابھلتے ہوئے گٹر، جگہ جگہ گندگی اور غلاظت کے ڈھیر
ٹریفک کا بے ہنگم نظام مسائل کا کھلا ثبوت
لودھراں جنگشن کے لئے مذید ٹرینوں کے روٹس بحال کرنے کی اشد ضرورت

لودھراں شہر کی ممتاز سماجی، فلاحی، سیاسی اور شعبہ تعلیم کے ماہر تعلیم سے منسلک شخصیت کے مالک افتخار احمد شیخ کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں، وہ ایک تعلیم یافتہ گھرانے کے چشم و چراغ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک مذہبی گھرانے سے بھی تعلق رکھتے ہیں، وہ ملتان کے مشہور علاقے “کوٹلہ تولے خان تغلق ” روڈ میں ایک تعلیم یافتہ گھرانے میں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم گورنمنٹ پرائمری اسکول کوٹلہ تولے خان سے حاصل کی، اور اپنی دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ دینخ تعلیم کی طرف بھی راغب رہے اور ایک نیک سیرت خاتون سے قران پاک پڑھا،
مڈل تعلیم آٹھویں تک اسلامیہ ہائی اسکول باغ سے حاصل کی، میٹرک تک تعلیم گورنمنٹ ہائی اسکول “گوگڑاں” ڈسڑکٹ لودھراں سے امتیازی نمبروں سے حاصل کی،انٹر میڈیٹ ملتان بورڈ سے کیا، گریجویشن کراچی یونیورسٹی سے کی، اور ریٹائرمنٹ 37 سال کے طویل عرصہ کے بعف گورنمنٹ ہائی اسکول “گوگڑاں” لودھراں ہوئے
اور پہلی ملازمت بطور پروفیشنل ٹیچر 1983 گورنمنٹ پرائمری اسکول “منڈالی” سے آغاز کیا،
افتخار احمد شیخ نے اپنی زندگی کے اوراق پلٹتے ہوئے اپنی بات کے سلسلہ کو جاری رکھتے ہوئے کہا، کہ میری زندگی کا یہ نصب العین رہا ہے ہے کہ مین نے اپنی زندگی بطور “چیلنج” کے گزاری ہے، مجھے آج تک کبھی ناکامی کا سامنا نہی کرنا پڑا، اور اب بھی بڑے پختہ عزائم کے ساتھ بھرپور زندگی گزار رہا ہوں، جو میرے اوپر اللہ کی ذات اقدس کا عظیم احسان ہے،
افتخار احمد شیخ نے “لودھراں” شہر کو درپیش مسائل کی نشاندھی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت لودھراں شہر کی آبادی ڈیڈھ لاک سے بھی تجاوز کر چکی ہے اور آبادی میں بڑی تیزی کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے، اس وقت “لودھراں ” شہر کا بنیادی مسلہ “سیوریج اور گٹر” کا ناقص نظام ہے جہاں جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر اور گلی محلوں کے اندر ابھلتے ہوئے گٹر ہیں، جس سے ٹریفک کی روانی کے تسلسل کا بھی یہاں کے عوام کو شدید سامنا یے، مسائل سن تو لئے جاتے ہیں مگر صد افسوس ان پر آج تک عمل نہی ہوا، لوگ اب کہہ کہہ کر اور مسائل کی نشاندھی کرواتے کرواتے تھک بھی گئے ہیں، مگر مسائل جوں کے توں پہاڑ بن کر کھڑے ہیں، انتخابات کے وقت حصول “ووٹ” کے لئے تو نمائندے نظر آتے ہیں مگر “ووٹ” کے بعد یہ عوامی نمائندے ڈھونڈے سے بھی نظر نہی آتے، ابھلتے ہوئے گٹروں اور گندگی کے تعفن سے جہاں مختلف قسم کی بیماریاں جنم لیتی ہیں وہیں پہ دوران نماز کی ادائیگی مساجد تک جانے کے لئے گندے گٹر کے کھڑے پانی سے گزرنا بھی پڑتا ہے، ذمہ داران کی کئی بار اس سنگین مسلہ کی طرف دلائی گئی مگر جھوٹی تسلیوں اور وعدوں کے کچھ حاصل نہی ہو سکا،
افتخار احمد شیخ نے مزید کہا کہ چوک بہاولپور بائی پاس پر گزشتہ کئی سالوں سے زیر تعمیر گلائی برج کے کام کا سیاسی بنیادوں پر کام رکا ہوا ہے اور تعمیراتی کام کی رفتار انتہائی سست روی کا شکار ہے، کئی بار اعلی حکام کی توجہ اس فلائی اور برج کی طرف دلائی جا چکی ہے مگر ابھی تک یہ مسلہ سرخ فیتا کا شکار بنا ہوا ہے،
اس زیر تعمیر پل کی تاخیر سے ٹریفک کے مسائل دن بدن بڑھتے جا رہے ہیں، پل۔کی تعمیر کے کام میں تاخیر کی وجہ سے اردگرد کے علاقوں میں گرد و غبار کی وجہ سے صحت کے مسائل بھی جنم لینا شروع ہو گئے ہیں، اردگرد کے علاقوں میں رہنے والے سانس لینے کی بیماریوں میں بھی تیزی کے ساتھ متاثر ہو رہے ہیں،
اس وقت “لودھراں” شہر کے اندر ریلوے لائن اور ٹرینوں کی آمد و رفت کے لئے چار ریلوے پھاٹک ہیں، جن میں سے ایک پھاٹک تو صرف “سی پیک ” کے لئے استعمال ہو رہا ہے، اسی پھاٹک پر آج سے آٹھ سات سال قبل ہزارہ ایکسپریس ٹرین کا سنگین حادثہ بھی رونما ہو چکا ہے، جس میں 9 معصوم اسکول کے بچے سپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے، ٹریفک کے نظام کی روانی کے لئے ان چاروں پھاٹک پر اور فلائی برج کی اشد ضرورت ہے، مگر آج تک اس بنیادی مسلہ کی طرف اعلی اور سیاسی حکمرانوں نے کوئی توجہ نہی دی،
“لودھراں” شہر کے اندر ٹریفک حکام کی ملی بھگت سے پارکنگ پر مافیا کا زبردستی قبضہ ہے، اور ٹھیکوں پر دی گئی پارکنگ چارجز اپنی من مانیوں کے ساتھ لے رہے ہیں، کوئی اس غنڈہ گردی اور بدمعاشوں کے خلاف ایکشن لینے وال نظر نہی آتا، اور لوگ ذہنی طور پر مریض بنتے جا رہے ہیں، پارکنگ فیس کی پرچی پر لکھی گئی فیس کو نظر انداز کھل کر کیا جا رہا ہے،
“لودھراں ” ریلوے جنگشن ہے مگر چند گاڑیاں یہاں پر رکتی ہیں ضرورت اس بات کی ہے کہ مزید ٹرینوں کے روٹس اور اسٹاپ کو بحال کیا جائے، اس وقت “لودھراں” کے اندر ایک پریس کلب کے علاوہ کل سات چوک بھی ہیں، جن پر بے ہنگم ٹریفک کا سنگین مسلہ دن رات رہتا ہے، خاص طور پر دوران اسکول اوقات اور چھٹی کے وقت ٹریفک سے لوگ پریشان نظر آتے ہیں،

افتخ ار احمد شیخ نے “لودھراں” کے ذمہ داران سے پر زور مطالبہ کیا ہے کی آبادی کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ “لودھراں” شہر کے بنیادی مسائل کو اولیت دے کر حل کیا جائے.

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں