پاکستان ڈائناسٹک موومنٹ ۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ پی ڈی ایم دراصل ایک خاندانی تحریک ہے جس کا جمہوریت سے صرف اتنا تعلق ہے کہ جمہوریت کی آڑ میں خاندانی تسلط کو برقرار رکھنے اور شہنشاہیت کو قاٰیم رکھنے ، لوٹے ہو اثاثے بچانے اور ذاتی حکمرانی کا پرچم بلند کرنے کے علاوہ کچھ نہیں۔ تمام خاندانی لوٹ مار کرنے والے خاندان اۤ پس میں متحد ہو کراپنے بچاؤ کی خاطر عوام میں کسی نہ کسی بہانے اپنی اپنی بھیڑوں کو مصروف عمل رکھنے کے جتن کر کے مختلف نعروں کا ہنگامہ برپا کرکے ریاستی عمل میں رخنہ پیدا کرنا اپنی سیاسی چال سمجھتے ہیں اور جس سے ان کو ریاست پہ دباؤ ڈالنا مقصود تو ہوتا ہی ہے مگر اپنی اپنی بھیڑوں کو اقتدار کے دنگل کا تماشہ بنانا اور انہیں مشغول رکھنا بھی منتہا ہوتا ہے۔
ہم رہے سیدھے سادھے شہری، ہم اقتدار کی بھول بھلیوں میں اٹھتی ہوئی لہروں کو سونامی سمجھ کر موجودہ حکومت کو چلتا کرنے کا نگارہ کھڑکا دیتے ہیں۔ اور ہر طرف شور و غوغا اٹھایا جاتا ہے کہ اب تو عدم اعتماد ہی سے فیصلہ ہوگا۔ اقتدار کی غلام گردشوں میں گھومنے پھرنے کے شائیقین ٹی وی چینلوں پہ بیٹھ کر حساب کی ایسی ایسی جمع تفریق کے اعداد و شمار پیش کرتے ہیں کہ سننے والا سمجھ جائے کہ بس اب چند لمحوں کی بات ہے بس پی ڈی ایم کا سونامی حکومتی عمارتوں کا تئہ پانچا کر کے رکھنے والا ہے۔ لفافہ بھی کرشمہ ساز ہوتا ہے۔
ارے بھئ پاکستان کے شہریوں سے سمجھداری کی توقع رکھنا اگرچہ کوئی عقل مندی نہیں مگر اللہ نے جسے سلیم القلب سے نوازہ ہو اسے یہ سب ریاضت محظ خاندانی دوڑ دھوپ سے زیادہ دکھائی نہیں دیتی۔ تین/چار خاندان ایسے ہیں جو کسی نہ کسی طور معتوب و مقہور و مجذوب ہوئے ہیں اور ان تین خاندانوں کے کرتوت سب جانتے ہیں یہ شہریوں کے درد میں مبتلا نہیں ہیں بلکہ صرف اپنے اپنے خاندانی جاہ و حشم اور لوٹے ہوئے مال کو بچانے کی تگ و دومیں نعرے بناتے اور اپنی اپنی عوام کو سرگرمی دے کر انہیں اگلے دنگل کی تیاری کا ایندھن بنانے کی تیاری کرنے کے علاوہ کچھ نہیں ہے، بس آل بچاؤ، کھال بچاؤ اور مال بچاؤ کی تپیسہ جاری ہے۔ کھاتا ہے تو لگاتا ہے کا چسکا لینے والے بھی ہم آواز ہوکر سر تال میں اپنی تان لگا دیتے ہیں مگر ہم سب شہری جانتے ہیں ” روندی یاراں نوں لے لے ناں بھراواں دے۔
اصل جمہوری دور پاکستانی عوام نے لوٹ مار کے علاوہ کچھ نہیں سمجھا اور ایک منضبط نظم کو انہوں نے ایک سخت گیر نظام سمجھا اور جس میں لوٹ مار کے مواقع کم اور معیار و اہلیت کی بنیاد پہ ترقی کا عمل ہوتا ۔ جو شہریوں کو دیکھنا نصیب کم ہوا اور خاندانی تسلط کی راہیں ہموار ہوتی رہیں۔ کاش کہ معیار و اہلیت و انصاف پہ مبنی نظام وجود میں اۤ جاتا تو یہ لٹیروں سے ملک محفوظ رہتا۔
275