پاکستان کی سیاست ایک بار پھر آڈیو لیکس کی زد میں ہے 333

پاکستان کی سیاست ایک بار پھر آڈیو لیکس کی زد میں ہے

(سٹاف رپورٹ ،تازہ اخبار،پاک نیوز پوائنٹ )

پاکستان کی سیاست ایک بار پھر آڈیو لیکس کی زد میں ہے، اور سوشل میڈیا پر حکمراں جماعت تحریک انصاف اور اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ ن کے کارکن تقریباً گتھم گتھا ہیں۔
معاملہ کچھ یوں ہے کہ ایک نجی ٹی وی چینل نے ایک آڈیو ٹیپ نشر کی ہے جس میں چینل کے مطابق مریم نواز اور پرویز رشید مبینہ طور کچھ صحافیوں سے ناراضی کا اظہار کر رہے ہیں جو ان کی جماعت پر تنقید کرتے ہیں۔
آڈیوٹیپ میں مبینہ طور پر پرویز رشید کو کہتے سنا جاسکتا ہے کہ ان کا ایک پروگرام ’اسکور کارڈ‘ ہے جس کا وہ حوالہ دے رے ہیں جو کہ نجی چینل ’جیو نیوز‘ کا معروف شو ہے۔
مبینہ طور پر پرویز رشید مزید کہتے ہیں کہ صحافی حسن نثار، جو کہ (ن) لیگ کو بہت گالیاں دیتے ہیں شامل کیے گئے ہیں۔
اس دوران مبینہ طور پر مریم نواز کہتی ہیں کہ اینکر پرسن ارشاد بھٹی بھی اس شو میں نظر آتے ہیں جس کے جواب میں پرویز رشید کہتے ہیں کہ ارشاد بھٹی بھی (ن) لیگ کے لیے بہت گندی زبان استعمال کرتے ہیں.
اسی طرح اس مبینہ آڈیو میں کچھ صحافیوں کو تحائف بھجوانے کی بات بھی ہو رہی ہے.
اس بحث نے زور پکڑ لیا ہے کہ ایک تو سیاست دان میڈیا کو مینیج کرتے ہیں اور انہیں تحائف بھیج کر اپنے حق میں بات کرنے کے لیے اُکساتے بھی ہیں۔
ریذیڈنٹ ایڈیٹر فہد حسین سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں صحافت ایک تاریک دور میں داخل ہو چکی ہے۔ یہ صحافت کے بدترین دن ہیں اور پچھلے چار پانچ برسوں میں یہ زوال شروع ہوا ہے جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا.
انہوں نے بتایا کہ میں سمجھتا ہوں کہ اس میں اس صورت حال تک پہنچانے والی قوتوں نے تو جو کام کیا سو کیا، میڈیا خود بھی اس کا پچاس فیصد ذمہ دار ہے۔ میڈیا ہاؤسز ہوں یا صحافی ایسی ایسی مثالیں ہیں جنہوں اپنی سکرینوں کو سیاسی جماعتوں کا ماؤتھ پیس بنادیا ہے.
البتہ چینل 24 کے ڈائریکٹر نیوز احمد ولید سمجھتے ہیں کہ میڈیا سے بہتر تعلقات بنانے کی روایت پوری دنیا میں نظر آتی ہے.
سیاسی جماعت ہو یا کوئی ادارہ یا سفارت خانے یہ تو پہلی بات ہے کہ اس ملک کے میڈیا کے اداروں اور صحافیوں سے بہتر تعلقات بنانے کے لیے ان کو بنیادی تربیت دی جاتی ہے.
ان کے مطابق تحائف بھجوائے جاتے ہیں اور کھانے کھلائے جاتے ہیں، لیکن اصل بات یہ ہے کہ کیا صحافی ان چیزوں سے مرعوب ہو کر ان کا بیانیہ اٹھاتے ہیں یا نہیں؟
بد قسمتی سے ہمارے ہاں یہ روایت زیادہ ہے، لیکن ایسے صحافی بھی ہیں جن کی سیاست دانوں سے دوستیاں تو بہت اچھی ہیں لیکن وہ اپنی خبر پر سمجھوتہ کبھی بھی نہیں کرتے۔
فہد حسین نے اس بحث میں لیک ہونے والی آڈیوز اور ویڈیوز پر ایک اور زاویے سے بھی بات کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’اصل بات یہ ہے کہ ہم اس وقت ایک انحطاط کا شکار معاشرے میں رہ رہے ہیں۔ اس وقت لوگ یہ بات تو ضرور کر رہے ہیں کہ اس آڈیو میں باتیں کیا ہو رہی ہیں، لیکن کوئی یہ بات نہیں کر رہا کہ کسی کی آڈیو یا ویڈیو خفیہ طریقے سے ریکارڈ کرنا بھی ایک جرم ہے.
انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ ’اس سے بھی بدترین بات یہ ہے کہ اس نجی گفتگو کو ایک تو خفیہ طریقے سے ریکارڈ کیا جاتا ہے اور پھر اس کو سیاسی مقاصد کے لیے لیک کی جاتا ہے.
اس ملک میں پرائیویسی نام کی چڑیا ہی ناپید ہو گئی ہے۔ خوف ناک بات یہ ہے کہ کسی کو اس کا ادراک نہیں ہے اور یہ بحث عوامی بیانیے میں موجود ہی نہیں ہے.

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں