تحریر: سندس صابر چوہدری ریاض سعودی عرب:پی این پی نیوز ایچ ڈی
کیا ہم نے کبھی اپنے طلباء کی آنکھوں میں وہ خواب دیکھے ہیں جو وہ خود دیکھنا چاہتے ہیں؟ یا ہم صرف انہیں وہ خواب دکھا رہے ہیں جو ہمارے معاشرے نے ان کے لیے طے کر دیے ہیں؟ کیا ان کے چہروں پر وہ خوشی ہے جو ایک سیکھنے والے ذہن کو ہونی چاہیے، یا صرف وہ بوجھ جو “اچھے نمبر” لانے کی دوڑ نے ان پر ڈال دیا ہے؟
ہمارے گھروں اور اسکولوں میں روز ایک جنگ ہوتی ہے، جس میں والدین، اساتذہ اور طلباء سبھی زخمی ہو رہے ہیں۔ والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے بچے کامیاب ہوں، اساتذہ چاہتے ہیں کہ ان کے شاگرد نمایاں کارکردگی دکھائیں، اور طلباء چاہتے ہیں کہ ان کے جذبات کو سمجھا جائے۔ مگر کامیابی کا پیمانہ صرف نمبر بن چکا ہے۔ 90 فیصد والا طالب علم عزت، پیار اور اعتماد پاتا ہے، جبکہ 60 فیصد والے کو ناکام، نالائق اور لاپرواہ سمجھا جاتا ہے۔ ہم نے اپنے طلباء کی ذہانت کو نمبروں میں قید کر دیا ہے، اور ان کے جذبات کو ایک رپورٹ کارڈ میں سمو دیا ہے۔
لیکن کیا کم نمبر لینا واقعی ناکامی کی علامت ہے؟ دنیا کی تاریخ دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ کئی عظیم شخصیات تعلیمی میدان میں نمایاں نہیں تھیں، مگر پھر بھی انہوں نے دنیا میں اپنا نام بنایا۔ آئنسٹائن کو اسکول میں کند ذہن سمجھا گیا، ایڈیسن کو استاد نے نالائق قرار دے دیا، اور جیک ما کئی امتحانات میں ناکام ہونے کے باوجود دنیا کے امیر ترین افراد میں شامل ہو گئے۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم بچوں کی صلاحیتوں کو پہچاننے کے بجائے انہیں ایک مخصوص معیار میں فٹ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہر طالب علم کا ذہن مختلف ہوتا ہے، ہر ایک کی اپنی منفرد قابلیت ہوتی ہے۔ کوئی ریاضی میں اچھا ہوتا ہے، تو کوئی آرٹ میں، کوئی کھیلوں میں نمایاں ہوتا ہے، تو کوئی تخلیقی صلاحیتوں کا حامل ہوتا ہے۔ کمزور نمبروں والے طلباء کا مطلب یہ نہیں کہ وہ زندگی میں کچھ حاصل نہیں کر سکتے۔ انہیں صرف اپنے اصل میدان کو پہچاننے اور نکھارنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
کامیابی صرف نمبروں پر منحصر نہیں ہوتی۔ اگر ایسا ہوتا تو آج دنیا کے بڑے کاروباری افراد، مصنفین، سائنسدان، اور فنکار سبھی کلاس کے ٹاپر ہوتے۔ حقیقت یہ ہے کہ اچھی تعلیم ضروری ہے، مگر وہ تعلیم جو صرف نمبروں تک محدود ہو، وہ بچوں کی اصل قابلیت کو دبا دیتی ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم بچوں کی خود اعتمادی کو صرف نمبروں کے ترازو میں نہ تولیں۔ انہیں وہ مواقع دیے جائیں جہاں وہ اپنے شوق اور قابلیت کے مطابق آگے بڑھ سکیں۔ والدین اور اساتذہ کو سمجھنا ہوگا کہ بچے صرف نمبر لینے کے لیے نہیں، بلکہ زندگی کو بہتر طریقے سے جینے کے لیے سیکھتے ہیں۔ اگر ہم نے اپنی سوچ تبدیل نہ کی تو شاید ہم بہت سے ایسے ہنر مند، تخلیقی اور ذہین طلباء کو کھو دیں گے جو اپنی صلاحیتوں کے مطابق دنیا میں کچھ بڑا کر سکتے ہیں۔
تو کیا ہم اپنے طلباء کو ایک خوشحال، بااعتماد اور کامیاب انسان بنائیں گے، یا انہیں صرف ایک نمبر لانے والی مشین؟ یہ فیصلہ ہمیں ابھی کرنا ہوگا!