Otherwise he would have to kill 132

وگرنہ مارنا پڑتا شاعر : عمر عزیز

وگرنہ مارنا پڑتا

چلو اچھا ہوا خود موت اپنی مر گیا منٹو
خدا کی ہمسری کرتا تھا
کہتا تھا
معاذاللہ
خدا بھی اک کہانی کار ہے
افسانہ گو ہے
اور یہ بھی سوچتا تھا وہ
کہ دونوں میں سے بہتر کون ہے
توبہ!
خدا کی مار ہو اس پر
کہ کوئی شرم ہوتی ہے
حیا ہوتی ہے
کیا کیا فحش لکھتا تھا وہ افسانے
فقط جنسی ہوس کے گرد
اس کی ہر کہانی تھی
یہ ٹھنڈا گوشت اور بلاؤز
بھلا پڑھنے کی چیزیں ہیں
یہ باتیں کالی شلواروں کی لکھنا
کھول دو جیسے نہایت لغو، منفی
اور ہتک آمیز موضوعات
ارے عورت کبھی تانگہ چلاتی ہے؟
اک اسلامی ریاست میں
یہ کس کلچر کو لے آیا
ہمارا تو نہیں ہر گز
یہ ٹوبہ ٹیک سنگھ آخر
ہے کیسا تبصرہ تقسیم کے بارے
مرض کیا تھا
اسے ہر شے سے گندی بو ہی آتی تھی
بہت اچھا کیا بجلی کے جھٹکوں سے
اسے داغا
جگر چھلنی کیا سستی شرابوں نے
لہو کی الٹیاں کرتا
چلو اچھا ہے خود ہی مر گیا سالا
وگرنہ مارنا پڑتا

عمر عزیز

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں