'پاک سعودی دوستی"" مجموعہ کلام کے مصنف ڈاکٹر خالد عباس الاسدی کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ہیں، جو گزشتہ 43 سالوں سے مدینہ منورہ میں ماہر طبیب ہیں 194

“ایک شخصیت ایک تعارف”خصوصی اںٹرویو/اعجاز احمد طاہر اعوان

تعاون/ولید اعجاز اعوان

“‘پاک سعودی دوستی”” مجموعہ کلام کے مصنف ڈاکٹر خالد عباس الاسدی کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ہیں، جو گزشتہ 43 سالوں سے مدینہ منورہ میں ماہر طبیب ہیں۔ اور ان کی وجہ شہرت کا باعث انکی تخلیقی کتاب “”پاک سعودیہ دوستی”” انکی شہرت اور شناخت کا بھی باعث ثابت ہوئی اور اس کتاب کی اشاعت سے دونوں ملکوں کے درمیان اکلوتی مراسم اور رشتوں کی مزید مضبوطی کا بھی باعث بنی انکی اسی شہرت کی بنیاد پر “”PNP”” کے لئے “”ایک شخصیت ایک تعارف”” کا جذبہ اجاگر ہوا آج ان کی زندگی کا پہلا اور یادگار انٹرویو قارئین “”PNP”” کی معلومات کے لئے زیر کی سطور میں آپ سب کی پیش خدمت کیا جا رہا ہے،

ڈاکٹر خالد عباس الاسدی نے اپنی زندگی کے اوراق کو پلٹتے ہوئے کہا کہ “”پاک سعودیہ دوستی”” کی اشاعت سے دونوں ممالک کے درمیان اخوت اور بھائی چارگی کے رشتوں میں ایک نئی ہم آہنگی اور مراسم میں یکجہتی نے جنم لیا۔ اس کتاب کی اشاعت سے ایک نئے نظریے کی بھی بنیاد رکھی گئی۔ اور یہ کتاب صحرائے ریگستان کے اندر ایک کھلا ہوا گلاب کے طور پر پیدا ہوئی۔ اور سعودی عرب کے تعلقات کے اندر ایک نئی پختگی نے جنم لے لیا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے اپنی ابتدائی تعلیم لاہور گورنمنٹ کالج سے حاصل کی۔ اس کے بعد سپریم کونسل آف اسلامک آ فیئرز کی ڈگری اعلی اور امتیازی نمبروں سے 1975 میں حاصل کی۔ اور مزید حصول ترلیم۔کے لئے مصر کی قاہرہ یونیورسٹی کا رخ کف لیا۔ سال 2981 میں قاہرہ یونیورسٹی میں ایم بی بی ایس میں داخلہ لے لیا۔ جتنے سال تک مصر میں رہا اپنے ملک کی یاد بہت ستاتی رہی، ایک ایک لمحہ اپنے وطن عزیز کی یاد دل کو آتی رہی ۔ مگر میری زندگی کا یہ مقصد حیات تھا کہ۔میں اپنی تعلیم کو مکمل کر کے کسی اعلی پوزیشن تک جلد سے جلد پہنچ جاوں۔ میری والدہ ماجدہ ہر نماز کے بعد میرے لئے یہی دعا مانگتی کہ میں ڈاکٹر بن کف جلدی سعودی عرب مدینہ منورہ کے شہر میں پہنچ جاوں اپنے ملک سے 6 سال کی طویل دوری کے بعد 1976 تک مصر میں تہا، میرے دل کے اندر اپنے ملک اور مدینہ منورہ میں رہ کر انسانیت کی خدمت ہر وقت مچلتی رہتی تھی اللہ پاک نے میری والدہ کی دعاوں کو قبولیت بخش دی اور مدینہ منورہ جانے امید بھی نظر آنے لگئی۔ سعودی عرب آنے سے قبل مصر میں ریڈیو سے منسلک ہو گیا اور 1979 میں بطور “”اینکر پرسن”” خدمات سر انجام دینے لگا۔ میں بنیادی طور پر نعت خواں بھی ہوں اور ترنم کے ساتھ نعت خوانی کرتا رہا میری نعتوں کی ریکارڈنگ آج بھی قاہرہ ریڈیو پر موجود ہے۔ ان خدمات پر مجھے مصر میں مختلف اداروں کی طرف سے اعزازی سرٹیفکیٹ اور اسناد سے بھی نوازا گیا۔ مصر میں رہتے ہوئے اقبالات کے حوالے سے عربی زبان میں میری ایک کتاب بھی شائع ہوئی۔ اور مصر سے شائع ہونے والے میگزین “”ماہنامہ القمر”” میں بطور ایڈیٹر میں فرائض کو سنبھال لیس۔ انہی دنوں میں نے علامہ اقبال پر آپ ی ایک تازہ نظم لکھی جسے ادبی حلقوں نے بےحد پسند کیا اور میری لئے شہرت کا دروازہ بھی کھل گیا۔ مجھے سوالات سے بچپن سے ہی شغف اور لگاو تھا۔

محمد اقبال پر لکھی گئی عربی کی کتاب میرے لئے اور میرے دل کے اندر اقبال کی محبت اور پاکستان کا جذبہ بھی تھا۔ سمیع اللہ مجاہد قریشی سفیر پاکستان اور قائداعظم کے خصوصی گارڈ بھی تھے ان کی راہ نمائی میں “”محمد اقبال”” کی شخصیت پر عربی زبان میں کتاب شائع ہوئی۔ یہ کتاب 1981 کے شروع میں اشاعت کے مراحل طے کرنے میں کامیاب ہو سکی۔ یہ کتاب نیشنل لائبریری اسلام آباد کے اندر پڑی ہوئی تھی یہ کتاب وہاں سے مصر لائی گئی اور 1981 میں یہ کتاب 175صفحات پر مشتمل شائع ہوئی۔

ڈاکٹر خالد عباس الاسدی نے کہا کہ اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد سال 1981 کے ابتداء میں بن لادن کمپنی میں بطور فزیشن کے اپنی پہلی جاب پر آ گیا۔ یہ پہلا پراجیکٹ مسجد بندی شریف کا پہلا پراجیکٹ تھا جس کے تحت مدینہ منورہ کی توسیع کا کام 1985 میں شروع کیا گیا اس کمپنی کے اندر مختلف ممالک کے 5 ہزار سے زائد ملازمین تھے۔ جن کی تمام میڈیکل کی فراہمی کی تمام ذمہ داریوں کو مجھے سونپا گیا۔ بس سارا دن مریضوں کی دیکھ بھال کے اندر ہی گزر جاتا۔ یہ میری جاب کا پہلا کنسٹرکشن کا پروجیکٹ تھا۔ یہ۔پراجیکٹ سال 2000 کے دوران مکمل ہو گیا مگر اس پراجیکٹ کے بعد بھی مدینہ منورہ کی توسیع ک سلسلہ جاری رہا۔ میں نے شعبہ صحت کی مزدوری کی ڈاکٹر کی نہی؟

ڈاکٹر خالد عباس الاسدی نے کہا کہ سال 1992 میں میں نے مدینہ منورہ میں “” مدینہ النبی ، کل اور آج”” کے عنوان سے 150 صفحات پر مشتمل کتاب شائع کی جس میں مدینہ منورہ کی مختصر تاریخی اور 1400 سو سال کی تاریخی حیثیت پر مبنی توسیعات پر تفصیلی روشنی ڈالی۔ یہ کتاب پاکستان کے اندر پرنٹ ہوئی۔ اور اس کتاب کی تقریب رونمائی کی یادگار تقریب الحمراء سنٹر لاہور میں ہوئی۔

ڈاکٹر خالد عباس الاسدی نے مزید کہا کہ سال 1990 کے دوران۔میری ملاقات میڈیم نور جہاں سے مدینہ منورہ میں ہوئی۔ اور انہوں نے میری مشہور غزل کو گانے کی پیش کش کی۔ پاکستان ٹیلی ویثرن کے پروگرام “”ترنم”” میں سال 1996 میں اپنی خوبصورت آواز میں یہ غزل پیش کی جس نے خوب شہرت حاصل کی غزل کے اشعار ملاحظہ ہوں۔

تیری سانسوں کو صبا کہتے ہیں
تجھے خوشبوئے خنا کہتے ہیں
ہو جدائی کا سبب، جدائی کا کچھ بھی مگر
ہم اسے اپنی خطا کہتے ہیں

ڈاکٹر خالد عباس الاسدی نے کہا کہ میں بنیادی طور پر غزل کا شاعر ہوں۔ مجھے شعرو ادب سے لگاو بچپن سے تھا۔ میرے والد گرامی محترم حاجی تاج محمد ہاشمی مرحوم اقبالیات کے منفرد شاعر تھے انکی راہ نمائی میں شعر و ادب کی طرف راغب ہوا جبکہ میری والدہ ماجدہ کو نعت خوانی۔کا بہت شوق تھا میں نے انکی راہ نمائی میں باقاعدہ طور پر نعت خوانی میں ان سے ترنم کے ساتھ نعت کا ہنر سیکھا۔ اور ترنم کے ساتھ نعت خوانی کا سلسلہ شروع ہو گیا۔

ڈاکٹر خالد عباس الاسدی نے کہا کہ۔سعودی عرب کے “”یوم الوطنی “” کی مناسبت سے میری تاریخی اور یادگار کتاب “”پاک سعودیہ دوستی”” پر سابق سفیر پاکستان برائے سعودی عرب منظورالحق نے اپنے تاثرات قلم بند کرتے ہوئے لکھا کہ اہل پاکستان کے لئے حرم پاک کی سر زمین عقیدتوں کا مرکز اور روحانی سرور کا سر چشمہ ہے۔ اس زمین کی مٹی کا ذرہ ذرہ انکی آنکھوں کا سرور اور تسکین ہے۔ان عقیدتوں اور محبتوں نے پاکستان اور سعودی عرب کے مابین برادرانہ اور بھائی چارے کی اخوتی میں پختگی کو مزید مضبوط کیا ہے۔ اور قلبی لگا و پر مبنی عظیم دوستی کی بنیاد رکھی ہے۔ اس خوبصورت دوستی کے نام ڈاکٹر خالد عباس الاسدی نے عقیدت کے جو پھول پیش کئے ہیں وہ اشعار کی زبان میں “”پاک سعودیہ دوستی”” کی شکل میں آپ کے سامنے ہے۔

محمد نعیم اسلامی تعاون تنظیم کے سیکرٹری جنرل جدہ سعودی عرب نے ڈاکٹر خالد عباس الاسدی نے پاکستان اور سعودی عرب کے لازوال ، مخلصانہ تعلقات کو آپ نے والہانہ جزبوں سے لبریز اپنے نہایت عمدہ اشعار میں سمویا ہے۔ شاعر کا انداز بیان جہاں بے ساختہ لئے ہوئے ہے وہیں حرمین شریفین کے لئے ان کی محبت و عقیدت اس کتاب “”پاک سعودیہ دوستی”” کی سطور سطر سے روشنی ن کر نمایاں ہو رہی ہے۔

کتاب “”پاک سعودیہ دوستی”” کا “”دیباچہ”” سابق سفیر پاکستان خان ہشام بن صدیق نے تحریف کیا اور انہوں نے
لکھا کہ پاکستانی تارکین وطن جہاں حرمین شریفین کی محبت میں سرشار ہیں۔ وہیں آل سعود کے پرستار بھی ہیں۔ کہ یہ خصوصی محبت اور نظر عنائت ہے۔ کہ پاکستانیوں کی ایک بہت بڑی تعداد اس سرزمین مقدس پر نہ صرف حصول معاش کے لئے مقیم ہیں۔ بلکہ اس ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنا اپنا کلیدی کردار بھی ادا کر رہے ہیں۔

ڈاکٹر خالد عباس الاسدی نے کہا کہ۔میرا تعلق زندہ دلانے شہر لاہور سے ہے۔ میری شادی میری کزن کے ساتھ سال 1984 میں۔ہوئی اور میری شریک حیات کا تعلق بھی شعر و ادب سے بہت گہرا ہے۔ اور پڑھے لکھے گھرانہ سے ہے۔ میرے کل چار بچے ہیں جن میں دو بیٹے اور بیٹیاں ہیں جو اعلی تعلیم۔کے بعد اپنی اپنی کامیاب زندگی گزار رہے ہیں۔ میرا ایک بیٹا مبشر ہاشمی جو “”جیو نیوز”” پر سینئر اینکر پرسن ے،

ڈاکٹر خالد عباس الاسدی نے کہا کہ میری یہ خوش قسمتی۔بھی ہے کہ 43 سالوں کے دوران مجھے مدینہ منورہ روضہ رسول کے اندر تین بار جانے کا موقع مل چکا ہے۔ اور مدینہ منورہ کی تعمیر و ترقی اور توسیع میں حصہ ڈالنے کا موقع مل چکا ہے۔

ڈاکٹر خالد عباس الاسدی نے کہا کہ اب تک میری آٹھ کتب شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں محمد اقبال عرب زبان میں، یہ غزلوں کا مجموعہ ہے۔ مدینہ النبوی، بارگاہ ادب نعت پر مبنی مجموعہ کلام۔ مفینہ۔منورہ قطعات رباعات۔ مدینہ۔منورہ اسلامی ثقافت کا دارالخلافہ۔ پاک چین دوستی۔ اور پاک سعودیہ دوستی”” شامل ہیں۔

جبکہ میری آنے والی کتب میں ریاست مدینہ۔ ہم عہد وفا میں زندہ۔ ڈاکٹر RUTH PFAO جو 57 سال تک پاکستان کے اندر رہیں اور حکومت پاکستان نے انہیں پاکستانی شہریت سے بھی نوازا گیا اور وہ کراچی ۔میں مدفون ہیں وہ پاکستان کے اندر کوڑ کی بیماری کی اکلوتی ڈاکٹر تھیں۔ اور حکومت پاکستان نے انہیں “” مادر خدمت”” سے بھی نوازا گیا۔

ڈاکٹر خالد عباس الاسدی نے اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا کہ جب بھی “”پاک سعودیہ دوستی”” کی تقریب رونمائی کی بات آئی سعودی عرب میں متعین سفیر کی سفارتی ذمہ داریوں کا وقت ختم ہو گیا۔ اور وہ یہ اہم۔کام ادھورا چھوڑ کر اس ملک سے واپس چلے گئے اب دوبارہ میں نے نئے سفیر پاکستان احمد فاروق سے رابطہ ۔قائم کیا ہے اب مجھے امید ہے کہ۔موجودہ سفیر پاکستان میری اس کاوش کو ضرور اہمیت دیں گئے اور میری کتاب کی رونمائی اپنے دست مبارک سے ضرور کریں گئے۔

ڈاکٹر خالد عباس الاسدی نے اپنے خصوصی پیغام میں کہا کہ پاکستان ایک عظیم ملک۔ہے اور لازوال قربانیوں کے بعد حاصل کیا گیا اگر اب بھی اس ملک کی قدر نہ کی تو پھر ہمیں کبھی دوبارہ پھر موقع نہی مل سکے گا۔ اپنے ملک سے محبت کریں اور پاکستان سے محبت کے جذبے کو تقویت کے ساتھ ساتھ اس کی۔حفاظت بھی کریں یہ ہماری اس ملک کے لئے آخری جنگ ہو گئی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں