Sumoto action of the Supreme Court 188

میڈیا کا منفی رویہ عالمی سازش کا حصہ ھے محمد امانت اللہ

میڈیا کا منفی رویہ عالمی سازش کا حصہ ھے
محمد امانت اللہ
قوموں کو تباہ کرنا اور ملک کو تقسیم کرنے کا عمل ہفتوں، مہینوں کا نہیں بلکہ سالوں پر محیط ہوتا ھے۔
اسکے لیے ضروری ھے ملک میں خواندگی کی شرح اتنی کم کر دی کہ معاشرے میں سوچنے اور سمجھنے والوں کی تعداد غیر یقینی حد تک کم ہو جائے۔
تخلیقی ذہن کا فقدان ہو جائے۔
معاشرے کی اکثریت بھیڑ بکریوں کی طرح ہو جائے انہیں یہ معلوم ہی نہ ہو کہنے والا سچ کہہ رہا ھے یا جھوٹ
تین سے چار دہائیوں سے ملک میں پڑھے لکھے اعلٰی تعلیم یافتہ افراد وطن عزیز سے ہجرت کر کے یورپ، امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ چلے گئے ہیں اور یہ عمل مسلسل جاری ھے۔
محتاط اندازے کے مطابق پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی سے تقریباً تیس ہزار اعلٰی تعلیم یافتہ خاندان ملک چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔
جو پرائیویٹ سیکٹر میں اعلٰی عہدوں پر فائز تھے۔ جنکی سوچ فکر ملک کی معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کیا کرتی تھی۔
انکے جانے کے بعد یونیورسٹیوں اور کالجوں میں اعلٰی تعلیم یافتہ استادوں کی کمی واقع ہو گئی۔
تعلیمی اداروں سے طالب علم ڈگریاں حاصل کر رہے ہیں مگر تعلیم معیار وہ نہیں رہا جو آج سے دو، تین دہائیوں قبل تھا۔
سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ملک میں کیمرج تعلیم رائج کر دی گئی، پاکستانیوں کی کثیر تعداد یہاں تعلیم حاصل کر رہی۔
اچھے اور ہونہار طالب علموں کو یورپ اور امریکہ کی یونیورسٹیوں میں اسکالرشپ دیے جاتے ہیں۔
وہ طالب علم، ان ملکوں کی تعمیر و ترقی میں اپنا اہم کردار کر رہے ہیں۔
اس عمل کو “برین ڈرین” کہا جاتا ھے۔
درحقیقت ملک میں دو طرح کی سوچ رکھنے والوں کی تعداد باقی رہ گئی ھے۔ وہ لوگ جنہیں شعور ہی نہیں کون اچھا ھے اور کون برا ھے۔
تالیاں بجا تے ہیں اور جلسوں میں جا کر نعرے لگاتے ہیں۔
اس امید پر کہ حالات بدل دیں گے یہ لوگ اور ملک میں خوشگوار تبدیلی لائیں گے۔
دوسرا طبقہ وہ ھے جو انکی سوچ پر قابض ھے اسکو عرف عام میں میڈیا کہا جاتا ھے۔
میڈیا صرف ٹیلی ویژن نہیں ھے، الکٹرانک میڈیا ، سوشل میڈیا سل، ٹیوٹر ، یو ٹیوب چینل، فیس بک، واٹسپ، اخبارات اور جریدے بھی شامل ہیں۔
آج میڈیا کے ذریعے لوگوں کے ذہن اور سوچ کو بدل دیا جاتا ھے۔
بالخصوص وہ لوگ جن میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کم ہوتی ھے۔
ہمارے ملک کی یونیورسٹیوں کی عالمی درجہ بندی میں پہلے پانچ سو یونیورسٹیوں میں کوئی مقام نہیں ھے۔
سوچنے سمجھنے اور دور اندیش لوگوں کی کمی واقع ہو گئی ھے گرتے ہوئے تعلیمی معیار کی وجہ کر۔
میڈیا میں کرپشن عام ہو گئی ھے، سوچے سمجھے منصوبے کے تحت عوام کو گمراہ کیا جا رہا ھے۔
سمع ابراہیم نے عمران خان کا انٹرویو لیا اور جو باتیں انہوں نےکی ہیں درحقیقت پر مبنی ہیں۔
ضروری نہیں طاقتور ملک کے پاس ایٹم بم ہو۔طاقتور وہ ھے جو معاشی طور پر مستحکم ہو۔
آرمی چیف نے بھی اپنی تقریر میں کہا تھا معاشی طور پر مستحکم پاکستان درحقیقت مستحکم پاکستان ھے۔
ملک کو معاشی بحران سے نکالنے میں اہم کردار اسٹیبلشمنٹ نے ادا کرنا ھے
اگر وہ نیوٹرل کا کردار ادا کر رہے ہیں
تو اسکا خمیازہ سب سے زیادہ انکو اٹھانا پڑے گا کیونکہ بجٹ میں سب سے زیادہ رقم ملکی دفاع کے لیے مختص کی جاتی ھے۔
ذر مبادلہ کے ذخائر جس تیزی سے کم ہو رہے ہیں اگر یہی حالت رہی تو ملک دیوالیہ ہو جائے گا۔
خان صاحب کیا ایک عام معاشیات کا طالب علم بھی یہی کہے گا ملک تباہی و بربادی کا سفر شروع کر چکا ھے۔
عالمی سازش کے تحت رجیم چینج کی گئی ھے انہیں وہ لوگ پسند ہیں جو انکی غلامی کریں اور بھکاری بن کر انکے آگے جھکے رہیں۔
عالمی طاقتیں کبھی بھی نہیں چاہیں گیں پاکستان ایک خود مختار ملک کی حیثیت سے زندہ رہے۔
اس کھیل میں ملک کے اندر سے میر جعفر اور میر صادق کی بڑی تعداد اپنے مفاد کی خاطر شریک ھے۔
خان صاحب نے آنے والے وقت کی نشاندہی کی ھے، عوام اور اداروں کو خبردار کیا ھے۔
مگر میڈیا مسلسل یہ کہہ رہا ھے ، درحقیقت خان صاحب یہ کہہ رہے ہیں اگر مجھے اقتدار نہ ملا تو ملک تین حصوں میں تقسیم ہو جائے گا۔
سابق صدر آصف زرداری کا بیان سامنے آیا ھے ہمارے ہوتے ہوئے ملک کو کوئی تقسیم نہیں کر سکتا ھے۔
یہ وہی آصف زرداری ہیں جو سندھ کارڈ استعمال کرتے رہے ہیں اور اداروں کو دھمکی بھی دیتے رہے ہیں۔
دوسری طرف نواز شریف نے ہمیشہ پنجاب کارڈ استعمال کیا ھے اقتدار میں آنے کے لیے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں ھے عمران خان کا کرپشن سے کوئی تعلق نہیں ھے۔
اپنے دور اقتدار میں مشکل فیصلے ضرور کیے مگر ملکی سلامتی اور تشخص پر آنچ نہیں آنے دی۔
آزاد خارجہ پالیسی کا بنیادی مقصد عوام کی بھلائی مقصود تھی۔
انٹرنیشنل سطح پر عمران خان نے ایک لیڈر کی حیثیت سے اپنا مقام بنایا اور ایک مقبول شخصیت کے طور پر اپنا لوہا منوایا۔
ملک میں موجود میر جعفر اور میر صادق کو یہ فکر لاحق ہوگئی اگر یہ اقتدار میں رہا تو ہماری دکان ہمیشہ کے لیے بند ہو جائے گی۔
اسی لیے یہ لوگ رجیم چینج کا حصہ بنے اور آج عمران خان کو ہمیشہ کے لیے راستے سے ہٹانے کے لیے ان پر غداری کا مقدمہ بنانے کی سازش ہو پپرہی ھے کہ وہ ملک کو تین حصوں میں تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔
امریکہ نے 1995 میں پاکستان کے مستقبل کا نقشہ بنایا تھا۔ جس میں پاکستان کو تین حصوں میں تقسیم کر کے دکھایا گیا تھا اور یہ کہا گیا تھا 2005 میں پاکستان ایسا ہو گا۔
9/11 کے واقعہ نے دنیا میں ہلچل مچا دیا اور پھر افغانستان کی جنگ کی وجہ کر عالمی سازشوں کا رخ ہماری طرف سے ہٹ گیا۔
آج پھر عالمی طاقتیں، میر جعفر اور میر صادق ایک پیج پر آگئے ہیں۔
میر جعفر اور میر صادق اپنی اپنی جائیدادیں بچانے کے لیے انکا ساتھ دے رہے ہیں۔
عمران خان نے کبھی بھی اپنے عمل اور بیان سے ملک کو نقصان نہیں پہنچایا ھے۔ میڈیا منفی کردار ادا کر رہا ھے اور عالمی سازش کا حصہ بنا ہوا ھے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں