نمیرہ محسن 292

گیان تحریر : نمیرہ محسن

تحریر : نمیرہ محسن
آج کسی نے بارش کی ایک ویڈیو اپنے فیس بک پر نشر کی۔ پتھریلی گلیاں اور لکڑی کے بھیگتے کواڑ اور کھڑکیاں مجھے ایک دم سالوں پیچھے لے گئے۔ کتنی متکلم ہوتی ہے بارش۔ ہر بدن کو بھگو کر اس کی اصل مہک عیاں کردیتی ہے۔ ابو کے کالر اور گردن سے اٹھنے والی مہک نے مجھے حصار میں لے لیا۔ کتنی ہی بار ان بازوؤں نے مجھے برستی بارش میں پناہ دی۔ اندرون لاہور کی سرخ اینٹوں سے سجی گلیوں میں بھیگتے گجروں، ایوننگ ان پیرس کلون، کھجور کی چٹائی، اشتہا انگیز کھانوں، میانی صاحب کے باہر قبروں پر سجنے والے گلاب، انارکلی کی نکڑ پر پان کی دکان سے فضا میں گھلنے والی قوام کی خوشبو، پٹرول اور ڈیزل کی ملی جلی کچھ نا خوشگوار، بارش سے بچنے کے لئے سر پر رکھے اخبار کی مہک، ایک ہجوم تھا خوشبوؤں کا جس نے مجھے گھیر لیا۔ چائے کا وہ کپ جو بارش جیسی ہنسی کو روکتے ہوئے پانی بن گیا تھا ، بہت یاد آیا۔ کوئین میری کے سنگ مرمر اور سرخ کے بنے فرشوں پر رقصاں کئی قطرے یادوں کے اوراق سے اچھلتے آ موجود ہوئے۔ جامن توڑتے ہوئے ٹہنی سمیت گرنا اور کیچڑ میں لت پت، پہلے امی سے مار کھانا اور پھر نہلائے جانا۔
باغ جناح کے برگزیدہ برگد، گلابوں کے تختے اور لائبریری کی پرانی کتابوں سے اٹھنے والی جان لیوا خوشبو۔
آنسو اور بارش ایک ہی قبیل سے ہیں۔ غم میں مبتلا ہونے پر انسان کا اصل چہرہ خود کو دکھائی دیتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں