اماوس کی رات ہے
جھینگر شور کرتے ہیں
سمندر کنارےگیلی گھاس
پہلو میں پھیلا ریتلا ساحل
آنکھیں آسمان کو تکتی ہیں
دوردور تک تنا
ایک شاندار
سیاہ نیلگوں
تاروں بھرا
کسی دلہن کی مسہری سا
پراسرار
خاموش
سمندر کے جگر میں ڈوبتا منظر
ایسی ہی ایک اندھیری رات
کسی کے نصیب کھا گئی تھی
دل ڈوبتا جارہا ہے
شاید ہر رات کی طرح
پھر سے مر رہا ہے
زندگی کو کون الزام دے
جب خنجر اپنے ہاتھوں نے چلائے ہوں
اماوس کی رات
کالا جادو ہو گا
اور ایک دل
گزشتہ کئی صدیوں کی طرح
قربان گاہپر چڑھایا جائے گا
چلو ستاروں!
قبر بنائیں
اور اس حرماں نصیب کو
دفنائیں
مبادا کہ کہیں
پھر جادوگر
اس کو لے جائیں
چڑیلیں
اس کو کھا جائیں
چلو ساحل کی ستارہ مچھلیاں بھی
سمندر میں اتر گئیں ہیں
آو کہ اب یہ دل
روتا بھی نہیں ہے
بس خاموش پڑا
ہمیں تکتا ہے
اس ساحل پر بارش بہت ہے
یہ بھی بہہ جائے گا
ہو سکتا ہے کہ
کسی سیپ کے سینے میں اتر کر
کوئی موتی ہی بن جائے
مگر نہیں
اس کو اب جلاتے ہیں
خاک سمندر میں بہاکر
آو اس کو نروان دے دیں
نمیرہ محسن نومبر 2023
364