مجھے ہے حکم اذاں 461

باغ جناح کے بوڑھے برگد اپنی خجالت چھپانے کو ڈاڑھیوں میں سر دیے خاموش تھے

شاعرہ : نمیرہ محسن
مردار
باغ جناح کے بوڑھے برگد اپنی خجالت چھپانے کو ڈاڑھیوں میں سر دیے خاموش تھے۔
شام کا ملگجا اندھیرا، سنبھل سنبھل کر عالیشان لائبریری کی چھت پر قدم دھر رہا تھا۔ وہ صبح سے الجھے بال لیے ایک ہی بنچ پر بیٹھا تھا۔ ” کراری دال اے، مرغ دال” کی آواز نے اس کی سماعت کو جھنجھوڑا۔ اس نے مڑ کر اسکی چھابڑی پر دھری مریل پیلی سی لالٹین کو دیکھا۔
آج اسے جو نظر آیا تھا وہ اسکی مختصر سی زندگی کے لیے بہت تھا۔ اسے اب کوئی منظر پریشان نہیں کر رہا تھا۔
زارا کی پیلی کلائی اور یہ پیلا رنگ کافی حد تک مماثلت رکھتے تھے۔ اس نے سر کو جھٹکا اور پھر خود سے بیگانہ ہو گیا۔ سامنے برگد پر الٹی لٹکی میمنے جتنی ایک چمگادڑ نے قلابازی لگائی اور فضا میں اپنے پر پھیلا دیے۔ برگد کی ہر ڈال کے ساتھ کئی جسیم چمگادڑ لپٹے ہوئے تھے۔ اوپر چیلوں نے کہرام مچا رکھا تھا۔ سارے لاہور کی فضا چیلوں کے پروں سے آلودہ تھی۔
اسے یاد آیا کہ کل ہی تو ایک بوڑھے نے فٹ پاتھ پر اسکی بازو پکڑ کر کہا تھا۔ ” تمہیں لاشیں نظر کیوں نہیں آتیں؟” اور آج اسے پورا شہر مردار نظر آرہا تھا۔ تعفن زدہ لاشیں اپنی موت سے یکسر لا علم، بے گور و کفن پورے شہر میں گھوم رہی تھیں۔ کیسا ظلم تھا کہ قبرستان خالی پڑے تھے اور گھر، دکانیں سب مردوں بھرے ہوئے تھے۔ کفن کو ترستی قبر سے بھاگی، خوفزدہ اور خون آشام لاشیں۔ سب ہونٹوں سے خون ٹپک رہا تھا۔
” بھیا! تم اداس کیوں ہو؟” ایک نرم ہاتھ نے اس کے بازو کو چھوا۔ ایک 9 سال کا بچہ روشن چہرے والا گول مٹول چمکتے کنچوں سی آنکھیں لیے گرم انڈوں کی ٹوکری اٹھائے اسکے کندھے سے کندھا جوڑ ے کھڑا تھا۔ نرم پھول کی پنکھڑی کے جیسا چہرہ۔ اس کا دل چاہا کہ اس کی کلائی تھام کر زور سے بھاگے اور اسے کہیں چھپا دے۔ اس پنکھڑی پر بھی جلد چمگادڑ لپٹے ہوں گے۔
سانس پھول رہا تھا، شاید دھڑکن بڑھ رہی تھی۔ ابھی تو ڈاکٹر سے دوائی لے کر آیا تھا۔ پیٹ میں کساو سا تھا اور معدہ منہ کو آرہا تھا۔ یوں محسوس ہو رہا تھا کہ کسی نے اس کو ایک بڑے سے غبارے میں قید کر دیا ہو اور وہ سڑکوں پر، ہواؤں میں ، ہر جگہ لڑھکتا جا رہا ہے۔ سب دکھائی دیتا ہے، مگر کچھ پکڑ میں نہیں۔ غبارہ اسے گول گول گھما رہا ہے اور وہ گھومتا جا رہا ہے بنا سانس لیے، بنا کسی کشش ثقل کے۔ صبح تو یہ عالم نہ تھا۔ ہوا خوری کے لیے نکلا تو اسی باغ کے ہر درخت نے اس پر گل گرائے تھے۔ “بھیا انڈے نہیں کھانے تو ہاتھ تو چھوڑو! ” ایک موم کے گڈے سے آواز آئی۔ اس نے دیکھا وہ ابھی تک اس بچے کی کلائی تھامے گم تھا۔ “جاو” اس نے جلدی سے ہاتھ سمیٹ لیا۔
جاری ہے
نمیرہ محسن
اپریل 2023

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں