260

محبوب عرصہ دراز سے مجھے ایک سوال کی کھوج رہی ہے، کچھ جواب کا حصہ پا لیا ہے اور باقی ابھی تلاش میں ہوں۔

تحریر : نمیرہ محسن
آخر ہم اللہ سے محبت کیوں نہیں کر پاتے؟
میں نے ایک دن وجوہات پر غور کرنا شروع کیا۔ مڑ کر گزری زندگی پر نظر دوڑائی۔ شرمندگی کے مارے نگاہیں زمین میں گڑ گئیں۔ اور اماں عائشہ رضی اللہ تعالٰی کا یہ فقرہ بے اختیار زبان پر رواں ہو گیا۔ ” کاش میں بھولی بسری ہوتی” ۔ رب محبوب ہمیں آزماتا ہے تو کبھی تنہا نہیں چھوڑتا۔ فورا ہمارے دکھ پر تڑپ کر ساتھ آکھڑا ہوتا ہے۔ مالک سے ذیادہ غلام کی کسے خبر! مالک بھی ایسا کہ جس نے اپنی محبت کا تعارف کروانے کے لیے صرف ایک حصہ ہماری ماں کو بخشا اور وہ اسی ایک بوند محبت میں اسیر اپنی اولاد کی خاطرشیر کے آگے کھڑی ہوجاتی ہے۔ اور میرا محبوب رب، جو باقی 79 حصوں کا مالک ہے کیسی محبت رکھتا ہو گا ہم سے؟ ماں آنسو دیکھتی ہے تو اوڑھنی سے صاف کرتی ہے سینے سے بھی لگاتی ہے۔ تو میرا مالک کیا کیا نہ کرتا ہو گا! مجھ پر یہ عقدہ بھی وا ہوا کہ جن لوگوں کی بے و فائی یا جدائی پر ہم روتے روتے مر ہی جانے لگتے ہیں دراصل وہ سوہنا ہمیں کسی شر سے بچانے کے لیے ان سے دور کر دیتا ہے۔ ہماری حفاظت کردی جاتی ہے بغیر کسی اطلاع کے۔ اور ضرورت پوری ہوتی رہتی ہے مگر ہم خواہش کے پیچھے بھاگتے رہتے ہیں۔ جبکہ خواہش تو جنت میں رکھی ہو گی۔ اللہ محبوب! ہمیں ماں کی طرح گود میں لیتا ہے، ہمیں اپنی رحمت بھری چادر میں چھپا لیتا ہے مگر ہم نادان بچے کی طرح بار بار ہر گزرنے والے موذی پر اپنا ہاتھ دھرتے ہیں۔ یہ دنیا نیرنگ اڑدہا ہے جس کی گود میں چمکتے آنکھوں کو خیرہ کر دینے والے کئی سانپ ہیں۔ماں جانتی ہے کہ انکا اصل چہرہ کیا ہے۔ اور جب ہم زہر سے بھر جاتے ہیں ہیں ، تھک کر چور ہو جاتے ہیں تو رب رحیم کی گود یاد آتی ہے۔ وہ ہمیں پھر سے باہوں میں بھرتا ہے، دوبارہ زندگی اتارتا ہے اس خاک کے ذرہ بھر فتنے میں۔ اور جونہی ہوش آتا ہے، پھر رنگ لبھاتے ہیں۔ اس خاک میں خاک بھرتے جاتے ہیں۔ اور خاک ہو جاتے ہیں۔
وما لی لا اعبد الذی فطرنی والیہ تر جعون۔
طالب دعا
نمیرہ محسن

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں