نمیرہ محسن 312

بابا (بیٹی کی فریاد) پیارے بابا! شاعرہ : : نمیرہ محسن

بابا
(بیٹی کی فریاد)
پیارے بابا!
آج سب فادرز ڈے منا رہے ہیں۔ جن کے حیات ہیں وہ انہیں تحائف اور محبت بھرے پیغامات بھجوا رہے ہیں۔ جو رخصت ہوئے ان کے لیے دعائیں۔
اور میں دل پر ہاتھ رکھے، گہری سانسیں لے رہی ہوں۔ ہوا میں زہریلا سیال پھیلا ہے۔ جسم میں درد ہے، آنکھیں دھند میں کچھ سپنے نکال بیٹھی ہیں۔

بابا تجھے مرنا نہ تھا، بیٹیوں کے باپ کو اللہ کو خضر کرنا تھا۔

میں آج تجھے یہ خط لکھنے بیٹھی ہوں۔ کون دیس بھیجوں، کس گلی، کس مکان کا پتہ لکھوں؟ کچھ نہیں جانتی۔ یہ چٹھی سمندر کو دے دوں یا ہوا کو منت ڈالوں، مگر دونوں تجھے تک نہیں پہنچ سکتے۔ شاید اللہ سے کہوں تو وہ ضرور میرا یہ غم نامہ جبرائیل کو دے کر تجھے سنوادے گا۔
بابا تیرے بعد لوگوں نے مجھے پتھر مارے، اب سنگسار کیوں ہوئی؟ نہیں جانتی۔ ہر پتھر پر میرا نام لکھا تھا، بڑے مضبوط ہاتھ تھے بابا۔ میں ڈر گئی تھی، میں روتی رہی، مجھے اور ڈرایا گیا، میں روئی تو دنیا کو اچھا لگا۔ یاد ہے نہ تو میری ہنسی پر قربان ہوتا تھا۔ پھر میں لوگوں کو خوش کرنے کو روتی رہی۔ میری آنکھیں غم کی آنچ پر پگھل گئیں تب ان ظالموں نے مجھے اندھی ہونے کے طعنے دیے۔
بابا میں نے سب کی خدمت کی، سارے کنکر، دہکتے کوئلے تیری شہزادی نے اپنی ہتھیلیوں پر سجائے۔ اور حکم ہوا کہ ایک آنسو نہ ٹپکے، ایک سسکی نہ بلند ہو۔ میرے باپ ابراہیم علیہ السلام کے لیے تو تیرے میرےرب نے آگ ٹھنڈی کی تھی مگر میری باری آئی تو آگ بھڑک گئی۔
ہاں یاد آیا میری ماں حوا کی غلطی بڑی تھی۔ اس کو بھی جنت سے پھینکا گیا تھا۔ میرا آنچل کالے کوے نے نوچ لیا۔ جسے تو سات پردوں میں چھپاتا تھا اسے طاقتوروں نے، جتھہ گروں نے ننگے سر بازار میں پھینک دیا۔

بابا میں پھر بھی سانس لیتی رہی۔ میں نے نئی کونپلیں کھلائیں۔ گلاب کے بوٹوں کو صحرا میں سینچا، پانی نہ ملا تو اپنا دل چیر کر لہو سے آبیاری کی۔ پتہ ہے بابا سارے کانٹے ہتھیلی میں، میری کمزور ہتھیلی میں کھب گئے۔ ہر کانٹا زہریلا تھا۔
بابا میں کاسنی رنگت لیے تیرے دروازے پر آنے کے انتظار میں ہوں۔
تو تو میرے رب کے پاس ہے۔ اسے کہہ جو مجھے ستر ماوں سے بڑھ کر محبت کرتا ہے کہ کھل کر سامنے آئے اور ان ظالموں کو بتائے کہ میں لاوارث نہیں ہوں۔ میرا ہاتھ پکڑے اور مجھے اپنے سینے سے لگائے۔
تو میری چادر تھا بابا، اب رب سے کہہ مجھے اپنی چادر میں چھپا لے۔
عزتوں والے رب سے کہہ جو میری فریاد نہیں سنتے، تو بھی ان کی نہ سن۔ بابا میری یہ شکایت اللہ کو پہنچا دے۔
بابا سارا جسم درد کرتا ہے۔ زبان والے، اختیار والے، مجھے ٹکٹکی پر چڑھائے مسکرا رہے ہیں۔ میں تھک گئی ہوں بابل۔ کسی کو مجھ سے محبت نہیں۔ سب اپنے حصے کا تقاضا کر رہے ہیں۔ ان کو دینے کو میرے پاس صرف مٹھی بھر خاک ہی ہے۔ میں کس سے اپنے بیمار وجود کا سودا کروں اور اپنی کوتاہیاں ان فرعونوں سے معاف کرواوں۔
نہ تو میرے باپ کی طرح مجھے عصا ودیعت ہوا اور نہ ہی ید بیضا۔ تجھے اللہ کب بھیج رہا ہے مجھے لینے؟ یاد ہے نہ جب میں کہیں جاتی تھی اور میرا جی نہ لگتا تھا تو تو لینے آتا تھا۔ میں دروازے پر کان لگائے بیٹھی ہوں۔
اوہ! میں بھول ہی گئی۔ والد کا عالمی دن مبارک
نمیرہ محسن
جون 2023

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں