نمیرہ محسن 273

ندا کی ندا کبھی کسی کو سنائی نہ دی

تحریر : نمیرہ محسن

ندا کی ندا کبھی کسی کو سنائی نہ دی۔ وہ گرم چائے کی پیالی کے دہکتے کنارے کو ہونٹوں میں دبائے دیر تک برف آنسوؤں کے پگھلنے کا انتظار کرتی رہی۔ آنسو پگھلے تو سہی مگر گالوں پر پھسلنے کی بجائے تپتے دل پر جا گرے۔ سارا نظارہ ایک دم سے دھندلا گیا۔ درد کی دھند اس کے سانسوں میں اٹک گئی اور وہ دھند سے اس پار دیکھے گئی۔ نانی کا گھر، بڑے بڑے دالانوں میں بکھری گرم دھوپ۔ حویلی کے صحن میں ٹین کے چھت پر لپٹی انگور کی بیلیں اور ان سے چھنتی دھوپ۔ اس دالان سے سامنے دیکھو تو نانی اپنے پلنگ پر بیٹھی قرآن پڑھتی نظر آتیں۔ سفید برف سر اور کانوں میں جھولتی دو بالیاں۔ سفید ہی ڈوپٹہ اور اس کے کنارے سلیقے سے کروشیا کی ہوئی کنارے کنارے بالکل ندا کی طرح بچ بچ کر چلتی پھولوں کی بیل۔ سارا ماحول ایک ربط میں تھا اور اگر کوئی بے ربط تھا تو وہ اسکی موجودگی تھی۔ سورج صرف اطمینان دان کر رہا تھا۔ اس نے اپنے بالوں کی ایک لٹ کو چہرے پر گرا کر اس میں سے سورج کو دیکھنے کے کوشش کی مگر ایک شہد رنگ پردے کے علاوہ کچھ نظر نہ آیا۔ کھری چارپائی کو سیدھا کیا اوپر لیٹ کر کھینچ کر مجنوں کمبل اوڑھ لیا۔ کمبل کے سیاہ اور سفید نمونوں سے ابلتی سورج کی مہربان کرنیں اس کو سہلا نے لگیں مگر چارپائی کی خالی درزوں سے سرد ہوا پسلیوں میں انگلیاں گھونپ رہی تھی۔ زندگی بھی تو ایسے ہی ہے۔ جب ہم پر کوئی مہربان سورج چمکتا ہے تو دل میں گڑے بے جان دکھ ہمیں کھل کر مسکرائے نہیں دیتے۔ پرانی یادیں ، زخم یا لغزشیں ہمیں متزلزل کر دیتے ہیں اور ہم باوجود سنہری دھوپ کے سکڑے، سمٹے، اور سہمے پتھر بن جاتے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں