کیا مسلہء کشمیر حل کئے بغیر بھارت سے تجارت کی جا سکتی ہے 161

میری آواز،کیا جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کا صدر بننے کا خواب پورا ہو سکے گا۔

اعجاز احمد طاہر اعوان،کالم نگار پی این پی نیوز ایچ ڈی

اگر ماضی کے اوراق کو پلٹ کر دیکھا جائے تو مولانا فضل الرحمن سربراہ “”جے یو آئی”” کا سیاسی کیئر بڑا ہی داغدار یے۔ انہوں نے جس ذمہ داری کے ساتھ کشمیر کمیٹی کے چیئرمین شپ کی ذمہ داری کو قبول اور سنبھالا کیا اس کو پورا کرنے میں بری طرح نہ صرف ناکامی سے دوچار ہوئے بلکہ کشمیریوں کے جذبات کو بھی بری طرح مجروح کیا۔ انہوں نے چیئرمین بننے کے دوران تمام سہولیات کا استعمال بھرپور انجوائے اور بےدریغ کیا مگر صد افسوس کہ اپنے عہدے کے ساتھ مکمل طور پر انصاف کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے ان کے نام کے آگے آج بھی سوالیہ نشان لگا ہوا ہے؟ کشمیر کمیٹی کے چیئرمین کو پورا کرنے میں بری طرح ناکام ہی ثابت ہوئے۔ تمام ستائشوں اور سہولتوں عیاشیوں کے حصول کے باوجود کشمیری عوام کی امنگوں اور ان کی حصول آزادی کے لیے کوششوں کے کردار کو داغدار کیا اور نتیجہ صفر اور غیر ذمہ دارانہ ہی رہا۔ وہ کشمیریوں کے حقوق اور آزادی کے لئے نہ وہ بیرون ملک گئے اور نہ ہی انہوں نے اس برننگ ایشو کے حوالے سے کوئی مثبت کردار ہی پورا کیا۔ جبکہ انہوں نے چیئرمین شپ کے لیے تمام بنیادی سہولیات کا تو بھرپور استعمال کیا۔ مگر وہ کشمیریوں کی جدوجہد کی تحریک کے لئے کوئی مثالی کارنامہ سر انجام دینے میں بری طرح ناکامی سے ہی دوچار رہے۔ کسشمیری عوام اور قیادت کی نظریں آج بھی ملک کی اعلی قیادت سمیت دنیا بھر کے مسلمانوں کے دوغلے کردار پر ہی لگی ہوئی ہیں۔ کشمیر کی سنگینی کے بارے مولانا فضل الرحمن کشمیریوں کی آزادی اور بنیادی موقف سے بھی دنیا کو آگاہ کرنے میں بری طرح ناکام ہی رہے۔ وہ اپنی پہلی ذمہ داری کے ساتھ تو انصاف نہ کر سکے مگر اب وہ ایک نیا خواب اور نئی ذمہ داری لینے کے لیے جاگتی آنکھوں سے صدر پاکستان بننے کا خواب دن رات دیکھ رہے ہیں۔ جبکہ صدر کا عہدہ تو ہوتا ہی “”اعزازی عہدہ”” ہے۔ یہ ان کا دوسرا خواب ہے صدر بننے کا۔ اور وہ ایک بار پھر صدر پاکستان بننے کی خواہش کرتے نظر آ رہے ہیں۔ ان کی نظریں اور خواہش انتخابات کے نتائج سے قبل ہی صدر پاکستان کی کرسی اور اقتدار پر لگ گئی ہے۔ اور پاکستان مسلم لیگ ن کے ساتھ باہمی مشاورت کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا ہے مگر صدر کا خواب تب ہی پورا ہو گا جب مسلم لیگ ن آنے والے انتخابات میں اکثریت سے کامیابی حاصل کرے گی۔ آج کل صبح شام اور اٹھتے بھٹتے ایک ہی خواب دیکھ رہے ہیں کہ کسی طرح مجھے صدر کے اقتدار کی کرسی مل جائے؟ جبکہ پی پی پی کے آصف علی زرداری بھی صد بننے کے امیدوار ہیں۔ انتخابات سے قبل سیاسی جوڑ توڑ کی جنگ کا آغاز ہو گیا ہے۔ مولانا فضل الرحمن کو یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ ان کی پارٹی اور قیادت کے ساتھ افغان طالبان کی مکمل حمایت بھی کرتی ہے۔ مولانا فضل الرحمن ایک قدامت پسند اور مذہبی نظریات کے حوالے سے ایک متنازعہ پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کو اقتدار میں آئے ہوئے اور کرسی کے نشے کو دیکھے ہوئے بہت لمبا عرصہ ہو گیا ہے اب وہ کرسی کے حصول کے خواب انتخابات سے قبل اور نتائج سے بہت پہلے حسین خواب دیکھنے لگے ہیں۔ اکثر خواب خواب ہی رہتے ہیں۔ ان کا حقیقت کے ساتھ دور دور تک کا تعلق نہیں ہوتا۔اکثر وہ صرف خواب ہی رہ جاتے ہیں جن کی تعبیر کبھی سامنے نہیں آتی؟ ابھی تک مولانا فضل الرحمن کی صدارت شپ کے بارے ان کی جماعت “”جے یو ائی”” نے ہھی کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا ہے؟ اس وقت ملک کی سیاسی جماعتوں اور “”جی ایچ کیو”” کے لئے مولانا فضل الرحمن کو بطور صد پاکستان قبول کرنا آسان نہیں ہو گا۔ اور “”جے یو آئی”” نے ہمیشہ ماضی کی طرح اپنی سیاسی حثیت سے بڑھ کر اقتدار کا حصہ مانگا ہے؟ آب وہ صد پاکستان بننے کے لئے مچلنے لگی ہیں۔ مگر ان کا صدر بننے تک کےلیے ملک کے عام انتخابات کے نتائج کے سفر کا انتظار تو کرنا ہی پڑے گا۔ یہ انتظار مولانا فضل الرحمنن کھ لیے انتہائی مشکل نظر آ رہا ہے۔ جو پارٹی اکثریت سے ملک کے آنے والے انتخابات جیتے گئی وہی اپنا صدر بنانے کا حتمی فیصلہ بھی کرے گئی۔ اگر خدانخواستہ مولانا فضل الرحمن اپنے صدر کے خواب کو پورا کرنے میں ناکام ہو گئے تو پھر ان کا اگلا خواب اور خواہش کیا ہو گئی اس کے لیے بھی انہیں ذہنی طور پر تیار ہونا پڑے گا؟.

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں