میری آواز 222

میری آواز. دنیا میں پانی کی کمی کا عفریت،کالم نویس/اعجاز احمد طاہر اعوان

پی این پی نیوز ایچ ڈی

دنیا میں پانی کی مسلسل کمی اور اس کی وجہ سے انتہائی سنجیدہ خدشات کے حوالے سے “”ورلڈ ریسروسز انسٹیٹیوٹ “” نے اپنی ایک تحقیقاتی رپورٹ شائع کی ہے جس کے مطابق دنیا کی ایک چوتھائی آبادی کو اس وقت پانی کی شدید کمی کا سامنا ہے۔ یعنی پانی کی طلب زیادہ ہونے کے باعث وہ تمام دستیاب ذخائر کا استعمال کر دیتے ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دنیا کی 25% آبادی کی نمائندگی کرنے والے 25 ممالک کو ہر سال پانی کے شدت بحران کا سامنا ہے۔ خاص طور پر بحرین، قبرص، کویت، لبنان اور عمان سب سے زیادہ متاثرہ ممالک میں شامل ہیں۔ ماہرین کے مطابق ہم پانی جیسے اہم ترین خزانے کی حفاظت کے لئے اس کی اہمیت کے مطابق انتظامات نہیں کرتے۔

رپورٹ کے مطابق 1960 کے بعد سے اب تک دنیا میں پانی کی طلب دوگنی ہو چکی ہے۔ مزید برآں سال 2050 تک اس میں 20 سے 25 ممالک تک اضافہ کا امکان ہے۔ پانی کی طلب میں اضافہ کی متعدد وجوہات ہیں۔ جیسے کہ آبادی کا بڑھنا، صنعتوں میں اس کے استعمال میں اضافہ وغیرہ۔ رپورٹ کے مطابق مشرق وسطی اور شمالی افریقہ دنیا میں پانی کی کمی سے سب سے زیادہ متاثرہ علاقے ہیں۔شمالی امریکہ اور یورپ میں پانی کے کنٹرولڈ، استعمال کے اقدامات پر سرمایہ کاری کی گئی ہے جس کے خاطر خواہ نتائج سامنے آئے ہیں لیکن اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ ان پر اثرات مرتب نہیں ہو رہے۔

رپورٹ کے مطابق مزید کہا گیا ہے کہ پانی کے بحران کے بڑھنے میں موسمیاتی تبدیلیوں کا بھی بڑا عمل دخل ہے۔ دنیا میں موسمیاتی تبدیلیوں سے خوشک سالی اور گرمی کی شدت اور اس کے دورانیوں میں اضافہ ہوا ہے۔ جس کے باعث کافی پانی خشک ہو جاتا ہے۔ اور اس کے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ پانی کی اسی کمی کے باعث لوگوں کا شدید موسم کے باعث لوگوں کی زندگی کا تحفظ بھی مشکل ہو جائے گا۔

ماحولیاتی ماہرین کے مطابق اگر صنعتی ماحول میں پیدا ہونے والی حدت کو 1،3 سے 2،4 ڈگری سینٹی گریڈ اضافے تک محدود بھی کر لے تو بھی دنیا بھر کے ایک ارب افراد سے زائد افراد کو سال 2050 تک پانی کی شدید قلت کا سامنا ہو گا۔ رپورٹ میں موجودہ صورتحال کو بہتر بنانے کے لئے کئی حل بھی تجویز کئے گئے ہیں۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ کاشتکاروں کو پانی کے ضیاع سے بچانے کے لئے موثر استعمال کے طریقے اپنانے کے لئے تیار کیا جائے۔ جنگلات اور دلدل علاقوں کو محفوظ یا بحال کیا جائے۔ جبکہ پالیسی سازوں کو توانائی کے ایسے ذرائع پر توجہ مرکوز کرنی چاہئے جس کے لئے پانی پر زیادہ انحصار کرنے کی ضرورت نہ ہو۔ گو کہ سنگاپور اور لاس بیگاس میں اس حوالے سے قابل تعریف پالیسیاں اپنائی گی ہیں مگر عالمی سطح پر کئے جانے والے اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں