اعجاز احمد طاہر اعوان،پی این پی نیوز ایچ ڈی
سید ابو الاعلی مودودی مشہور عالم دین، مفسر قرآن اور اور جماعت اسلامی کے بانی تھے، جو 20ویں صدی کے موثر ترین اسلامی نظریہ کے مفکرین میں سے ایک تھے۔ ایک فکری سوچ اور اسلامی تصانیف نے پوری دنیا کی اسلامی تحریکوں کے ارتقاء میں گہرا اثر ڈالا۔ اور بیسویں صدی کے “”مجدد اسلام”” بھی ثابت ہوئے۔ مولانا مودودی وہ شخصیت تھے کہ ان کی وفات کے موقع پر سعودی عرب کے شہر مکہ مکرمہ “”کعبہ شریف”” میں غائبانہ نماز جنازہ پڑھائی گئی۔ جماعت اسلامی کے بانی ہونے کے اعزاز کے ساتھ ساتھ انہوں نے اپنی زندگی کو جماعت اسلامی کے منشور اور مقاصد کے لئے ہمیشہ کے لئے وقت کر دی تھی۔ جماعت اسلامہ کا قیام 26 اگست 1994 کو وجود میں آیا۔ سید ابو الاعلی مودودی رحمت اللہ علیہ نے صرف 75 نفوس اور 74طروپے چودہ آنے کے انتہائی کم شرمائے کے ساتھ جماعت اسلامی کی داغ بیل ڈالی۔ اس سے قبل وہ “”مسہنامہ۔ترجمان القرآن”” اور “”ادارہ دارلسلام”” کے ذریعے دین اسلام کیبترویج کی تحریک کی صورت دینے کے لئے رائے سازی کا کام بھی کر رہے تھے۔ ان کی زندگی کا یہ نصب العین بھی تھا کہ جماعت اسلامی کی دعوت دراصل پوری امت اسلامیہ کے لئے مشترکہ طور پر مصروف عمل بھی ہے۔ اور قرآن و سنت کے ذریعے جمسعت اسلامی نے انسانوں اور روح زمین پر بسنے والے انسانوں کو درپیش مسائل و مشکلات کے حل کا راستہ بھی روشناس کرایا ہے۔ سید ابو الاعلی مودودی رحمت اللہ علیہ جماعت اسلامی کے پہلے امیر منتخب ہونے ک اعزاز بھی رکھتے تھے۔ اور اپنی پوری زندگی خدمت اسلام کی بلندی اور فروغ اسلام کے لئے وقف کر رکھی تھی۔ ابو الاعلی مودودی نے جب جماعت اسلامی کے امیر بننے کا اعزاز حاصل کیا تو ان کی عمر صرف اڑتیس برس تھی۔ جماعت اسلامی کے قرآن و سنت کے پیغام پر مشتمل ادب کی قیادت کا کام، اولین ترجیحات کے طور پر شروع کیا۔ بانئ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے کہنے ہر شیڈ ابو الاعلی مودودی رحمت اللہ نے ریڈیو پاکستان پر اپنی پہلی تقریر نشر کی، وہ اپنی زندگی میں پاکستان کو ایک اسلامی فلاحی اور نظریاتی ملک کے طور پردیکھنے کے خواہشمند بھی تھے، ان کے درمیان اور انکی سوچ کے اندر اس نصب العین کے درمیان کوئی اختلاف بھی نہیں تھا۔ 1950 میں سید ابو الاعلی مودودی نے اسلامی دستور کا جب خاکہ پیش کیا تو و حکومت پاکستان نے سن کی تقاریر نشر کرنے ہر پابندی عائد کر دی۔ اور جماعت اسلامی کے نظریات کے حامی شائع ہونے والے اخبارات کو بھی بند کر دیا۔ یہ دور جماعت اسلامی کے لئے بہت ہی آزمائش اور مشکلات کا دور تھا۔ ختم نبوت کے دفاع اور قادیانی سازشوں کے خلاف اپنی ختاب لکھنے پر مولانا سید ابو الاعلی مودودی کو گرفتار بھی کر لیا گیا۔ اور “”سزائے موت”” کی سزا سنا دی گئی۔ اس مشکل گھڑی کے موقع پر مولانا مودودی نے اپنے لئے رحم کی اپیل کرنے سے بھی صاف انکار کر دیا۔ مگر بعد ازاں عالمی سطح کے احتجاج اور دباو کے پیش نظر سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کر دیا گیا۔ اور آخر کار مولانا مودودی کو 1955 میں ہائی کورٹ کے حکم پر رہا کر دیا گیا۔ 1958 میں پہلا مارشل لاء لگا تو تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی تمام سرگرمیوں پر پابندی لگا دی۔ ابتداء ہی سے جماعت اسلامی کا بنیادی مقصد حیات اور نصب العین “”عملا” اقامت دین “” کے ساتھ ہی منسلک رہا۔ اور جماعت اسلامی اپنے ان پختہ عزائم اور مقاصد کے ساتھ مکمل ہم آہنگی کے ساتھ ثابت قدم بھی رہی۔ جماعت اسلامی مکمل طور پر ایک نظریاتی جماعت ہونے کا مقام بھی رکھتی یے۔ جماعت کا تربیتی نظام، کارکنان کے اندر ایمانی جذبہ کا وہ ایندھن بھی ہے۔ جو کبھی کسی بھی مشکل وقت میں متزلزل کا شکار نہیں ہوا۔ جماعت اسلامی کا یہ بنیادی مقصد بھی ہے کہ۔اللہ کی زمین پر اللہ کا نظام ہی قائم کیا جائے۔ اسلام کے فروغ اور جماعت اسلامی کے لئے گرانقدر خدمات کی روشنی میں مولانا مودودی کی خدمات کو کبھی بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ انکی مکمل اسلامی روایات پر مشتمل زندگی ہم سب کے لیے مشعل راہ کا درجہ بھی رکھتی یے۔ آئیے ہم سب مل کر یہ پختہ عزم کریں کہ اپنی زندگیوں کو عملا” اقامت دین کی سربلندی سے منسلک کرنے کے لئے مولونا ابو الاعلی مودودی کی تعلیمات پر ہمیشہ عمل کریں۔