میری آواز ،اکتوبر 2023 سے اکتوبر 2024، جنگ کا ایک بھیانک سال 46

میری آواز ،اکتوبر 2023 سے اکتوبر 2024، جنگ کا ایک بھیانک سال

کالم نگار/اعجاز احمد طاہر اعوان،پی این پی نیوز ایچ ڈی

فلسطین اور اسرائیل کے درمیان اکتوبر 2023 سے اکتوبر 2024 کے درمیان جنگ کا بھیانک اور وحشت سے بھرپور سال ثابت ہوا یے جنگ کا ایک سال تو مکمل ہو گیا مگر اس دوران مسلم دنیا کا مردہ ضمیر اب بھی بے حسی میں ڈوبا ہوا ہے۔ مسلم دنیا آج بھی اپنی آنکھوں پر پٹی باندھے خواب غفلت کی گہری آغوش میں ہی ڈدوبی ہے اور انسانیت کے جذبے کو مردہ بنا کر رکھ دیا ہے۔ اور مسلم دنیا کے ضمیر کو جگانے میں مسلسل اور بے حسی کی نظر ہی گزر گیا ہے۔
اسرائیل کی طرف سے فلسطینی بے گناہ اور نہتے فلسطینی عوام پر اسرائیل کے مظالم، دہشت گردی اور درندگی باعث مسلم دنیا کے لئے شرمندگی اور ندامت کی بات ہے۔ مسلم دنیا کے اندر انسانیت کا درد اور احساس دور دور تک کہیں نظر نہیں آ رہا۔ ادھر اسرائیل کی طرف سے یہ اعلان بھی۔کیا جا چکا ہے کہ وہ حماس کو صفحہء ہستی سے مٹ کر غزہ سے اس کا وجود ختم کر دے گا۔ ایک سال کی جنگ کے باوجود اسرائیل کا یہ دعوی اب تک سامنے نہیں آ سکا۔ اب تک جنگ سے 43 ہزار سے زائد فلسطینی اور بچے موت کی آغوش میں جا چکے ہیں۔
اس میں صرف 19۔ہزار سے معصوم اور بے گناہ بچے بھی شامل ہیں۔اسرائیل اور فلسطین کی طرف سے عربوں اور فلسطینیوں سے کوئی بھی جنگ اتنی طویل نہیں ہوئی، جتنی موجودہ جنگ ہے۔ مسلم دنیا کی سرد مہری مسلسل سوالیہ نشان کے ساتھ ساتھ باعث ندامت کا بھی کھلا ثبوت ہے۔ اب تک جنگ کےدوران ہونے والے جانی و مالی نقصان کے بارے مسلم دنیا ( کے کھوکھلے بیانات) پر ہی تک ہی محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ اسرائیل فلسطین کے درمیان جاری جنگ اب تیزی کے ساتھ عالمی جنگ کی طرف اپنا رخ تبدیل کر رہی ہے۔ اور عرب دنیا کا پورا خطہء “”بارود”” کے ڈھیر پر کھڑا ہے۔
ایک سال کی جنگ کے دوران اسرائیل کو دیگر ممالک سمیت عرب دنیا کے ممالک کی طرف سے تنقید اور پریشانی کا سامنا بھی ہے۔ اس مشکل گھڑی میں پوری دنیا کے اور عرب دنیا کے مسلمانوں کو آپس میں اتحاد اور یگانگت کی پہلے سے اب کہیں زیادہ ضرورت محسوس ہونے لگی ہے۔ مسلم دنیا کی حیثیت اب صرف “”مسلمانی “” تک ہی۔محدود ہو کر رہ گئی ہے۔اسرائیل فلسطینی جنگ کےدوران اب تک فلسطین کو مالی اور معاشی مشکلات کے ساتھ ساتھ جنگجووں و سامان کی خریداری پر 67 بلین ڈالرز کے خسارے اور نقصان کا سامنا ہو چکا ہے۔
امریکہ اور یورپی ممالک کی طرف سے اسرائیل۔کو مالی اور جنگی سامان کی فراہمی کا سلسلہ اب تک جاری و ساری ہے۔ جب کہ مسلم ممالک۔کی طرف سے جنگی سامان کی فراہمی “”صفر”” ہے؟ آخری سطور اس افسوس اور شرمندگی کے ساتھ اختتام کرتا ہوں کہ۔ہم صرف اور صرف زبانی مسلمان ہو کر رہ گئے ہیں ہمارے عملی طور پر مسلمان ہونے کا کہیں۔کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ او آئی سی کے اتحاد میں 56 سے زائد مسلم ممالک کے اتحاد کا دائرہ کا بھی اب خطرے کی دہلیز کو پار کرنے کے قریب ترین پہنچ چکا ہے۔ اب مسلم دنیا کے ممالک کو بیانات کے دائرہ سے باہر نکلنا پڑے گا۔ اور اپنے آپکو کھوکھلے بیانست کہ فہرست سے باہر نکالنے کا وقت بھی آ چکا ہے، مسلمانوں کو اپنے مردہ ضمیر کو جگانے کا وقت آ چکا ہے.
شائد کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات،،،؟؟؟

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں