کالم نگار/اعجاز احمد طاہر اعوان
پاکستان سمیت دنیا بھر میں ہر سال 2 نومبر کو صحافیوں کے خلاف جرائم کے خاتمے کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ ایک صحافی جو اپنی زندگی کے خطرات کے باوجود اپنے قلم کی حرمت کی پاسداری اور ذمہ داریوں کے لئے اپنے فرائض کو پوری ایمانداری کے ساتھ پورا کرتا ہے۔ مگر صد افسوس کہ صحافیوں کے خلاف جرائم میں ملوث اکثر مجرم قانون کی گرفت اور سزا کے انجام تک نہیں پہنچ پاتے۔
اقوام متحدہ کی طرف سے ہر سال یہ دن منانے کا بنیادی مقصد بھی یہ ہے کہ صحافیوں کے ذریعے عوام کو حق و سچ سے آگاہی فراہم کرنا بھی بنیادی فریضہ میں شامل ہوتا ہے۔ اور صحافت کو ریاست کا چوتھا ستون کا درجہ بھی دیا گیا ہے۔ اس وقت پاکستان کے اندر صحافیوں کے تحفظ کا قانون بھی بن چکا ہے مگر اس کے باوجود صحافیوں کے خلاف جرائم کے اعدادوشمار تشویشناک حد تک پہنچ چکے ہیں۔ پاکستان میں سال 2000 سے لے کر 2022 تک تقریبا” 150 صحافیوں کو قتل کیا گیا۔ جبکہ صرف دو ملزمان کو نشان عبرت بنایا جا سکا۔ انٹرنیشنل غیر سرکاری تنظیم “”فریڈم نیٹ ورک”” کے مطابق سال 2024 کو پاکستان میں کام کرنے والے صحافیوں کے لئے انتہائی مہلک اور خطرناک قرار دیا گیا ہے۔ اس سال 6 صحافیوں کو قتل کیا گیا۔ اور 11 پر قاتلانہ حملے ہوئے۔ ایک اور رپورٹ کے مطابق نومبر 2023 سے اگست 2024 کے درمیان تک صحافیوں کے خلاف 57 واقعات ریکارڈ کئے گئے۔ ان میں سے زیادہ 21 واقعات سندھ، 13 پنجاب، 12 اسلام آباد، 7 خیبر پختونخوا، اور 2 واقعات بلوچستان میں رونما ہوئے۔ “”یونیسیکو “” کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں ہر چار دن میں ایک صحافی کو قتل کیا جاتا ہے۔ اور صحافیوں کے قتل کی شرح میں تقریبا” 83 فیصد تک اضافہ بھی ہو چکا ہے۔۔۔۔!