my voice 200

میری آواز صحافت ریاست کا چوتھا ستون؟ مگر عدم تحفظ کی زد میں؟

کالم نویس/اعجاز احمد طاہر اعوان

صحافت کو کسی بھی ریاست کا چوتھا ستون تصور کیا جاتا ہے، مگر اتنا اہم اور حساس ادارہ ہونے کے باوجود بھی آج پاکستان کے اندر اس سے منسلک صحافتی برادری بری طرح عدم تحفظ کا شکار ہے، اس وقت ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان بھر میں پروفیشنل اور نان پروفیشنل پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ساتھ منسلک تعداد تقریبا” 35 ہزار سے بھی تجاوز کر گئی ہے، اور ملک کے اندر تقریبا” 120 کے قریب نیوز چینل ہیں، اور اس تعداد میں تیزی کے ساتھ اضافہ بھی ہو رہا ہے، جو النے اپنے ٹی وی چینل پر بریکنگ نیوز اور اپنے اپنے چینل کے ذریعے اپنی اپنی “ریٹنگ” بڑھانے کی شب و روز بھاگ دوڑ میں لگے ہوئے ہیں،ان چینل سے تقریبا” مختلف پروگراموں کے لئے اینکر پرسن “میل فی میل” 100 کے لگ بھگ ہی ہوں گئے، ان ٹی وی چینل کے مالکان کی طرف سے ان کو دیا جانے والا ماہانہ معاوضہ بھی کوئی خوش کن نہیں ہے، اور اگر ماضی کے اوراق کو پلٹ کر دیکھا جائے تو اس شعبہ صحافت سے منسلک اپنے صحافتی فرائض کی ذمہ داریوں کے دوران اس جہان فانی رخصت ہو گئے، ان میں سے بہت سارے دہشت گردی کا نشانہ نھی بن گئے، جن میں سرفہرست سینئر صحافی ارشد شریف بھی ہیں جنہیں ہم کبھی فراموش نہیں کر سکتے جن کے قاتل اور دہشت گردی کی آج تک حقائق منظر عام پر نہیں آ سکے، پوری صحافتی برادی آج بھی ان کی جدائی میں سوگوار ہے، اور ان کی ہم سے جدائی کا زخم بہت دیر تک محسوس کیا جائے گا، مگر صد افسوس کہ شعبہ صحافت سے منسلک مالکان کی طرف سے ہمیشہ ہی بے حسی کا ثبوت دیا جاتا یے اور اب بھی دیا جا رہا ہے، شہید ہونھ والے صحافیوں کے اہل خانہ کے ساتھ چند دن تک ہمدردی اور سوگ کا رشتہ ظاہر کیا جاتا ہے مگر وقت گزرنے کے ساتھ ہی مالکان بھی اس کی فیملی کو بے یارو مددگار اور تنہا اللہ کے سہارے چھوڑ جاتے ہیں، اور پھر کبھی بھولے بھٹک سے بھی ان کے اہل خانہ کی خبر نہی لی جاتی، نہ ہی ان کے خاندان کی کوئی مالی معاونت اور مالی مدد کا سہارا ملتا ہے، بس وہ اللہ کے سہارے اور اس کے رحم و کرم پر ہی زندگی کے باقی دن گزارتے ہیں، جس پر جتنا بھی افسوس کیا جائے وہ کم ہی ہو گا، مگر اگر اخباری صنعت سے منسلک مالکان چاہیں تو وہ متاثرہ صحافی کے خاندان اور بچوں سے اس کی شہادت کے بعد بھی مالی معاونت کر سکتے ہیں، مگر یہاں پر حقیقت بالکل اس کے برعکس ہی ہے، درحقیقت اس شعبہ سے منسلک صحافیوں کا کوئی مستقبل ہی نہی ہے، وہ اپنے شعبے سے تو مخلص اور سنسیئر ہوتے ہیں مگر کوئی دوسرا ان سے مخلص “آٹے میں نمک کے برابر” اخبارات کے مالکان کی طرف سے بعد از مرگ نہ ہی کوئی پنشن اور خاندان کی مالی معاونت کا سوچا جاتا ہے، دراصل صحافیوں کی ساری زندگی بھاگ دوڑ اور خبریں اکھٹی کرنے میں ہی بسر ہو جاتی ہے، اکثر صحافیوں کے تو اپنے گھر تک نہیں ہوتے وہ ساری زندگی کرائے کے مکانوں میں ہی بسر کر دیتے ہیں، ماضی میں جن صحافیوں کو درندگی اور دہشت گردی سے قتل کیا گیا، ان کے سچ بونے کی پاداش میں ہی موت کی آغوش میں جوانی ہی میں چلے گئے، جسم میں ہفت روزہ “تکبیر” کراچی کے سینئر صحافی صلاح الدین مرحوم بھی ہیں، جن کے قاتلوں کا آج تک پتا نہی چل سکا کہ کیا ان کا جرم تھا اور ان کے قاتل کہاں غائب ہو گئے؟ ان کے قتل کا سنگین مسلہ آج بھی ایک سوال ہی بنا ہوا ہے، اس کے علاوہ “GEO” کے بھی سینئر رپورٹر بابر ولی خان کو بھی 13 فروری 2011 کو لیاقت آباد بڑی ہی بے دردی اور ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے موت کے گھاٹ اتار دیا، قانون نافذ کرنے والے ادارے اور تحقیقاتی ٹیمیں آج تک ان کے قاتلوں کا سراغ نہیں لگا سکے، انصاف کے تقاضے اس قدر طویل ہو جاتے ہیں کہ حصول انصاف کا انتظار کرتے کرتے تحقیقات ادارے بھی اپنی فائلوں کو بند کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں، بابر ولی خان کے قتل کا معمہ آج بھی ایک سوال بنا ہوا ہے، ملک کے اندر قانون ہے عدالتیں ہیں مگر اگر کچھ نہی ہے تو وہ مشکل کام “حصول انصاف” کا ملنا اور میسر آنا سب سے زیادہ مشکل اور کھٹن ہے، اخبارات اور ٹی وی مالکان کی بے حسی بھی کسی سے کم نہی ہے، وہ بھی ایک دن آ کر صحافی کے لواحقین کو بے سہارا اور بے آسرا چھوڑ جاتے ہیں، یہ بات سچ ہے کہ جہاں الیکٹرانک میڈیا کے آنے سے ہزاروں لوگوں کو روزگار میسر آیا ہے، اخبارات کی طرف سے فری لانسر صحافت کے لئے اعزازی پریس کارڈ دے دیا جاتا ہے، 2011 کے دوران اس وقت کی بر برسراقتدار حکومت نے صحافیوں کے لئے سینٹ کی قائمہ کمیٹی نے ایک بل منظور کیا تھا، جس کے تحت پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار صحافیوں کے ساتھ انصاف فلاح بہبود کی بنیاد پر حقوق کی بات چیت کی گئی، صرف زبانی جمع خرچ، اس وقت کی حکومت نے صحافیوں کی فلاح بہبود کے نظریہ سے ہم آہنگ ہوتے ہوئے 20 کروڑ کی کثیر لاگت سے
” Journalist Victim Fund”
قائم کیا گیا، جس کے مطابق شہید ہونے والے صحافی کے لواحقین کی مالی امداد کے طور پر 5 لاکھ اور کسی بھی حادثاتی موت کی صورت میں 22 لاکھ روپے دیئے جائیں گئے، اس کے علاوہ پیشہ ورانہ فرائض کی ادائیگی کے دوران جسمانی اعضاء سے محروم ہونے والے صحافیوں کو تین تین لاکھ سور بچیوں کی شادی کے لئے 50 ہزار روپے اس کے علاوہ ہیلتھ انشورنس اور دیگر بنیادی سہولیات کی فراہمی کو بھی یقینی بنایا جائے گا، مگر آج تک اس بل کی منظوری پر عمل درآمد نہی ہو سکا، مگر اخبارات کے مالکان کی طرف سے مکمل طور پر اس بل کی مخالفت اور اسے منظور کرنے سے صاف انکار کر دیا گیا، اور اب تک انکاری قائم ہے،

آج بھی ایک صحافی اور لکھاری کا “قلم” آزاد نہیں ہے، اسے اپنے “قلم ” کو سچ کی ڈگر پر چلانے کے لئے کئی بلکہ لاتعداد مسائل اور مشکلات کا سامنا ہے، اور آج کا صحافی مکمل طور ہر ایک دباو کے اندر اور پابندیوں کے کڑے امتحان سے گزرتا اور گزارنا پڑتا ہے، جبکہ صحافی کا قلم ملک و قوم کی امانت بھی تصور کیا جاتا ہے، صحافیوں کے تحفظ کی خاطر ہر سال 9 نومبر کو عالمی سطح پر آزادی صحافت دن بھی منایا جاتا ہے، اس وقت پوری دنیا کے اندر پاکستان شعبہ صحافت کے 114 ویں نمبر پر کھڑا ہے، پاکستان کے اندر “آزادئی صحافت” کا صرف تصور ہی رہ گیا ہے، یہ بھی حقیقت ہے کہ اس وقت تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق پاکستان صحافتی مقام ہر 151 ویں نمبر ہے، اخباری صنعت سے منسلک اور اس کے مالکان اب تو سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے صحافیوں کی بہتری اور مفاد عامہ کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے کوئی لائحہ عمل مرتب کریں، اور صحافیوں کے بنیادی حقوق اور ان کے تحفظ پر غور فرمائیں،،،جو اس وقت صحافیوں کی اہم ضرورت بھی ہے،

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں