کیا مسلہء کشمیر حل کئے بغیر بھارت سے تجارت کی جا سکتی ہے 156

میری آواز دشت میں پھول کھلانا ہے مجھے، سر سید احمد خان

کالم۔نویس /اعجاز احمد طاہر اعوان ،پی این پی نیوز ایچ ڈی

سر سید احمد خان کے خیال میں مسلم قوم کی اصلاح اسی صورت میں ہو سکتی تھی کہ وہ اپنے اندر موجود تمام برائیوں کو جڑ سے نکال کر پھینک دیں۔ سر سید احمد خان 17 اکتوبر 1817 کو دہلی میں پیدا ہوئے گویا 17 اکتوبر 2023 انکی دو سو چھبیس ویں سالگرہ کی تاریخ ہے۔ جو ہماری ادبی اور فکری تاریخ کا زرین ستارہ کا درجہ رکھتی ہے۔ یورپ کی تاریخ میں نشاط ثانیہ کی جلو میں معاشرے میں جو ترقی اور انقلابی تبدیلی رونما ہوئی۔ مسلم دنیا اس سے بیگانہ ہی رہی۔ کیونکہ مسلم معاشرے میں کوئی صنعتی انقلاب کوئی جمہوری انقلاب برپا نہ ہوا۔ 1942 میں جماعت اسلامی کا قیام اسی زمرے یعنی احیائی تحریکوں میں شامل ہے۔ ان جیسی تحریکوں کو جاگیرداری کی باقیات سمجھنا چاہئے ۔ البتہ 26ویں صدی میں سر سید احمد خان کی تحریک ایک ایسی تحریک تھی جسے بھر پور تحریک کہا جا سکتا ہے۔سر سید احمد خان کا ہر پہلو ان کی خدمات اور کارناموں کی روشنی میں ان کی شخصیت کی عظمت اظہار من الشمس ہے۔ سر سید احمد خان ایک عظیم ، جامع اور مصلح کی حیثیت سے بھی جانی جاتی ہے۔ آپ نے اس دور میں ہندوستان کے مسلمانوں کی اصلاح اور راہ نمائی کی جب برصغیر کے مسلمانوں کی سیاسی، تہذیبی اور معاشی حالت ابتر سے ابتر ہوتی جا رہی تھی۔اور حالات انہیں بدحالی کی طرف لے جا رہے تھے۔ 1857 کھ ہنگامہ رپور انقلاب کے بعد ان کی پستی انتہا کو پہنچ گئی تھی۔ شرافت انسانیت اور حکمرانی کے برتر جوہر ان سے چھین لئے گئے تھے۔ زندگی کے تمام شعبہ جات جس میں تعلیم ، تہذیب، حسن و اخلاق ، جاہ مندی روشن خیالی معاشی اور سیاسی مختصر یہ کہ قومی زندگی کے ہر میدان میں وہ تنہا رہ گئے تھے۔

سر سید احمد خان نے تمام عمر مسلمانوں کی فکر میں نہ صرف بات کی بلکہ اس سلسلے میں عملی اقدام اٹھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، اپنی تقریروں اور تحریروں اور اسکول اور کالج کے قیام کے سلسلے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ انہوں نے انگلستان کی تاریخ کا بغور مطالعہ کیا۔ اور یہ جانا کہ تقریبا” ڈیڈھ سو سال پہلے انگلستان میں اسی قسم کی ذہنی پستی اور اخلاقی تنزل کا دور تھا۔ اور اس سے قبل فرانس بھی ان حالات سے گزر چکا تھا۔ بغیر اعلی تعلیم کے مسلمان جدید طرز کی قومیت کی تعمیر میں کوئی حصہ نہیں ڈال سکتے۔ اور اگر انگلستان کے بعد ان کے خیالات مسلمانوں کی اصلاح کے بارے میں قطعیت کے ساتھ متعین ہو گئے۔ ان کے دماغ پر عقلیت کے ساتھ متعین ہو گئے۔

سر سید احمد خان نے تمام عمر مسلمانوں کی فکر میں نہ صرف بسر کی بلکہ اس سلسلے میں عملی اقدام اٹھانے میں بھی کوئی عملی کسر کو نہ چھوڑا۔ وہ تہذیب ا لا خلاق کے لیے زیادہ تر مضامین خود ہی لکھتے تھے۔ اور اپنا نقطہ نظر عام آدمی کو واضع الفاظ میں بیان کرتے تھے۔ سر سید احمد خان سے پہلے کوئی ایسا ادیب و شاعر یا صحافی نظر نہیں آتا تھا جس نے اپنی زندگی کے تمام مضامین کا حق ادا کیا ہو۔ ان کے اندر یہ منفرد انداز اردو زبان کے اندر پہلی بار پڑھنے کو ملا جس کا سارا کریڈٹ سر سید احمد خان کو جاتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں