میری آواز
کالم نگار/اعجاز احمد طاہر اعوان
پاکستان پیپلز پارٹی PPP کی طرف سے”بےنظیر انکم سپورٹس پروگرام” کا آغاز اس نظریہ اور ملک کے غربت کی چکی میں پھسے ہوئے متوسط خاندانوں کی مشکلات کو ، کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں جینے کا بنیادی حق دینا بھی مقصود اور مدنظر تھا، ابتداء میں اس منصوبے کی تکمیل کے لئے 34 ارب روپے کا کثیر فنڈ مختص کیا گیا تھا، جس سے ملک بھر می 14% آبادی جو سرکار اور حکومت کی نظر میں “غریب ” تصور کی جاتی ہے، ان سب کو الی ریلیف ملے گا، BISP کی طرف سے ہر قومی اسمبلی کے ممبرز کو 8 ہزار سے زائد فارم تقسیم کئے گئے،یہ فارم کی تقسیم کا کوئی مربوط طریقہ کار واضع نہی کیا گیا تھا، صرف اس بات کی نشاندھی کی گئی تھی کہ اس اسکیم سے ہر وہ شخص مستفید ہو سکے گا جس کی ماہانہ آمدن 6000 ہزار روپے سے کم ہو گئی، اب اس ملک میں 342 ممبران قومی اسمبلی ہیں،
” عالمی یوم خوراک” کے موقع پر حالیہ سروے کے مطابق پاکستان میں 70 لاکھ سے زائد افراد کم آمدنی ک شکار ہیں، جن میں سے 35 لاکھ افراد کو “ورلڈ فوڈ پروگرام” کی طرف سے مالی امداد فراہم کی جا رہی ہے.
“ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن “WHO” کے مطابق یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ پاکستان میں اس وقت 45 ملیں افراد غربت کا شکار ہیں، پاکستان کی آبادی کو فی کس کے حساب سے “1700 کیلوری” توانائی میسر ہے، جبکہ عالمی معیار کے مطابق ایک فرد کو روزانہ 2340 “کیلوری توانائی کی ضرورت ہوتی ہے، ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان کی 24% آبادی “”خط غربت”” سے بھی نیچے زندگی گزار رہی ہے، اور 73% آبادی کی آمدن صرف 2 ڈالرز سے بھی کم ہے.
شہید جمہوریت محترمہ بے نظیر بھٹو اپنے زندگی می ایسے غیر پیداواری منصوبوں بہت ہی کم یقین رکھتی تھیں، مثلا” فرسٹ وومن بین کم لیڈی ہیلتھ ورکرز پروگرام، اگر محترمہ کے اس خواب کو حقیقی معنوں می شرمندہ تعبیر کرنا ہے تو از “BISP” کے طریقہ کار پر ازسرنو نظرثانی کرنی ہو گئی، اس اسکیم سے غربت کو پروا چھڑانے کی بجائے کم آمد اور متوسط جا دانوں کو کاروباری سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے، اس نظا کو اج پھر تبدیل کر ے کی ضرورت پیش آ گئی ہے.