کالم نگار/اعجاز احمد طاہر اعوان،پی این پی نیوز ایچ ڈی
امریکی صدارتی انتخابات میں کامیابی کے بعد ایک بار پھر ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کے 47ویں صدر منتخب ہو گئے، اور اپنی کامیابی کا سہرا اپنے سر پر سجا لیا۔ اپنے انتخابی حریف کملا ہیرسن کو بھاری اکثریت سے شکشت سے دوچار ہونا پڑا۔ نئے انتخابات میں حیرت انگیز بات یہ بھی سامنے آئی ہے کہ امریکہ میں مسلم اکثریتی علاقوں میں ڈونلڈ ٹرمپ نے بہترین کامیابی کا معرکہ بھی مار لیا ہے۔ اس بار انتخابات کے نتائج مکمل طور پر مختلف رہے۔ اور مسلم کمیونٹی ووٹرز کی پہلی پسند ڈونلڈ ٹرمپ رہے، انتخابات کھ بعد اب مسلم دنیا کی نظریں اپنے مسائل کے حل کے لئے ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف لگ گئی ہیں۔ حانلکہ ٹرمپ نے اپنے سابقہ دور اقتدار میں کئی مسلم مخالف فیصلے بھی کئے جن میں دے سیک بنیادی مسلہء کئی مسلم ممالک پر سفری پابندیاں بھی عائد کر دی تھیں، اور سابق صدر بائیڈن نے اقتدار میں آتے ہی اس سفیر پابندی کو ہٹا دیا تھا۔ انتخابات کے مکمل ہونے کے بعد نئے امریکی صدر ٹرمپ نے مسلم۔دنیا سے پہلا یہ وعدہ کیا ہے کہ مشرق وسطی میں پائیدار اور مستقل حل کی طرف اپنی پہلی توجہ دیں گے، اس کے علاوہ مشرق وسطی اور یوکرین میں جاری جنگ فوری طور ہر ختم کرائیں گے۔ یاد رہے کہ 2017 میں جب ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکہ کے اقتدار پر قبضہ کیا تو انہوں نے کئی مسلم ممالک پر گشٹہ پابندیاں عائد کر دیں تھیں۔ جس میں عراق، شام، ایران، لیبیا، صومالیہ، سوڈان اور یمن شامل تھے۔ امریکی نئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارتی انتخابات میں کامیابی پر سعودی عرب کے فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز، ولی عہد محمد بن سلمان، متحدہ عرب امارات کے حکمران، قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد نے مشترکہ طور پر ڈونلڈ ٹرمپ کو انتخابات میں کامیابی پر مبارکباد پیش کی ہے۔ عرب راہنماوں اور مسلم دنیا نے اب ڈونلڈ ٹرمپ سے یہ امید بھی توقع کی ہے کہ ٹرمپ اپنا اقتدار سنبھالنے کے بعد مشرق وسطی میں جاری تنازعات کے خاتمہ اور ایران کے ساتھ تعلقات کو بھی بہتر کریں گے۔ عالمی دفاعی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اپنی صدارت کا حلف اٹھانے سے قبل غزہ اور لبنان میں جنگ بندی کی بھرپور کوشش کریں گے۔ عرب راہنماء یہ بھی چاہتے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ مشرق وسطی میں اسرائیل اور فلسطین کے مابین سرحدی تنازعہ اور دونوں ممالک کے درمیان جنگ کو بند کرانے میں اپنا کلیدی کردار ادا کریں گے۔ اور ڈونلڈ ٹرمپ نے انتخابی مہم کے دوران جو وعدے کیے تھے جن میں غزہ جنگ بندی کرانا بھی شامل تھا، اب دیکھنا یہ ہے کی ٹرمپ یہ سب کچھ کیسے کرتے ہیں۔ کیا جنگ کا خاتمہ اور ایک فلسطین ریاست کے ویام۔کے ساتھ ہو سکے گا؟ جبکہ ادھر اسرائیل ایران پر جنگی حملہ کرنے کے لیے تیار ہے۔ اب ایک پیچیدہ صورتحال۔یہ بھی سامنے آ رہی ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے لئے مشرق وسطی کی صورتحال سے نمٹنا آسان نہیں ہو گا۔ جبکہ ایران اسرائیل کے ساتھ مقابلہ۔کرنے کے لئے بھی تیار ہے۔ دفاعی تجزیہ کاروں کا یہ بھی موقف ہے کہ جنوری 2025 میں ڈونلڈ ٹرمپ اپنے عہدے کا حلف اٹھانے سے قبل اسرائیل فلسطین جنگ بندی ختم کرانے میں بھی کامیاب ہو جائیں گئے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے یہ بھی موقف سامنے آیا ہے کہ وہ 20 جنوری 2025 سے پہلے پہلے دونوں جنگیں ختم کرانے میں بھی کامیاب ہو جائیں گے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے صدارت اور اقتدار ایک چیلنج کے طور پر سامنے آئے گا کہ وہ مشرق وسطی کے اندر درپیش اور پیچیدہ مسائل کو فوری ختم کرائیں۔ یہ خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ ممکنہ طور ہر اسرائیل کی دائیں بازو کی حکومت کی جانب سے مغربی کنارے کے بڑے علاقے پر قبضہ کو تسلیم کر سکتے ہیں۔ اگر ایسا ہوا تو حالات فلسطینیوں اور اردن کھ لیے مزید پیچیدہ ہو جائیں گے۔۔۔۔!