“””” میری آواز”””
ہمارے معاشرے کا دکھتا اور عدم احساس سے عاری سنگین مسلہ،،،معاشرے کے سنگ دلوں کے احساس ندامت کب بیدار ہو گئی،، “اولڈ ایج ہوم”
“” OLD AGE’S HOME””
کالم نویس/اعجاز احمد طاہر اعوان
آج میرا قلم اور “”PNP”” کے لئے میری خصوصی تحریر کو “””صفحہ قرطاس” پر انتہائی درد مندی کے اندر ڈوب کر لکھ رہا ہوں، جس کو پڑھ کر اور لکھ کر میرا اپنا ضمیر بھی مجھے “”””جھنجھوڑنے”” لگا ہے، اس قسم کے واقعات سے اور ہمارے اردگرد ایسے لاتعداد سنگین واقعات سے بھرا پڑا ہے، مگر اس قسم کے واقعات سے یوں لگتا ہے کہ جیسے ہمارا معاشرہ بے رحم اور سنگ دلی کی تمام حدود کو پار کر چکا ہے، ہمیں اس بنیادی اور معاشرتی مسلہ کے بارے سوچنے کا وقت ہی نہی ملا، کہ ہم کہاں پر آ کھڑے ہوئے ہیں، میری مراد اس وقت پورے پاکستان کے اندر قائم “”چیرٹی ادارے ” با کثرت قائم ہیں، مگر ان سب میں سے ایک ادارہ “”اولڈ ایج ہوم”” بھی ہے، جہاں سنگ دیلی کا یہ عالم ہے کہ اپنے ہی خونی رشتوں کو اپنی ہی اولاد گھر نکال کر ان اداروں کے اندر چھوڑ کر آجاتے ہیں اور پھر سالہا سال تک پلٹ کر ہی نہی دیکھتے، اور نہ ہی کبھی بھول کر ان اداروں کا رخ کرتے ہیں، اور عیدین اور دیگر تہواروں کے مواقع پر ملنے تک نہی آتے، یوں لگتا ہے کہ ہمارا معاشرہ انسانیت کی تمام حدود کو پامال کر چکا ہے، یہ وہی بوڑھے والدین ہوتے ہیں کہ جو خود پریشانیوں میں اور تکالیف برداشت کر کے اپنی اولاد کو اعلی تعلیم سے آراستہ کرنے کے بعد ان کی شادیاں اور انہیں روزگار سے بھی منسلک کرتے ہیں، اور ان بوڑھے والدین کو ان چیرٹی اداروں کے سپرد کر کے پھر کبھی لوٹ کر واپس نہی آتے، حالانکہ ہونا تو یہ چاہئے کہ ملک کے اندر سے یہ سب “”””چیرٹی ادروں”” کو مکمل طور پر ختم کر کے ان سب کی سر پرستی کی ذمہ داری حکومت وقت لے لے؟ انہیں دکھی اور لا چاری کی زندگی سے بھی نجات حاصل ہو جائے، یہ ہمارے اور ہمارے ملک کا قیمتی اثاثہ کا درجہ رکھتے ہیں، آج ہم سب کو یہ بھی سوچنا ہے کہ ہم اللہ کے عذاب سے کیوں نہی ڈرتے؟ ہمارے اندر احساس انسانیت کب اور کسی طرح اجاگر ہو گا؟ ہم انہیں “”اولڈ ایج ہوم” کے اداروں کے رحم و کرم پر چھوڑ کر اللہ کے عذاب اور خوف سے کیوں بے نیاز ہو گئے ہیں، یہ بوڑھے اور ضعیف بزرگ والدین ہماری جنت کا مقام رکھتے ہیں،ہمارا معاشرہ اس سنگ دلی کے ماحول سے کب باہر نکلے گا؟ کب یہ احساس ہمارے دلوں کے اندر اجاگر ہو گا، کہ کبھی ہم بھی اس دہلیز تک یعنی بوڑھے ہوں گئے اس وقت اگر یہ سب کچھ ہمارے ساتھ ہوا تو تاریخ وقت کو پھر ایک بار دہرائے گئی؟ ہم یہ کیوں بھول جاتا ہیں کیوں یہ بات فراموش کر دیتے ہیں، کہ اس دولت اور رحمت کے فرشتوں اور گھر کی روشنی کے چراغوں کو فوری طور پر واپس لے کر آئیں، ہمیں یہ سب کچھ کرتے ہوئے ندامت اور شرمندگی کا مردہ ضمیر کب اور کسی طرح انسانیت کو جگانے میں اپنا اپنا کلیدی کردار ادا کرے گا، کیا ہم اپنے آپ کو انسان کہنے اور کہلوانے کے حق دار ہو سکتے ہیں؟ وہ آج بھی اس امید اور آس کے سہارے زندہ ہیں کہ کب اور کون ہمیں “”عید مبارک”” اور ہماری خیریت اور ہمارے دکھوں کے مداوا کے لئے اوو ہمیں یہاں سے اپنے گھروں میں واپس لے جانے کے لئے واپس کوٹ آئے گا؟ ہماری امید آج بھی زندگی کی آخری امید اور سہارا ہیں، نجانے زندگی کا یہ چراغ کب “”گل”” ہو جائے، پھر انصاف کا ترازو روز قیامت کے اندر ان بزرگ اور بوڑھے والدین کے ہاتھوں میں ہو گا، اس وقت تک بہت دیر ہو جائے گئی، ان بوڑھے والدین نے آپ کے آرام کا ہر طرح سے خیال رکھا، خود گیلی جگہ پر لیٹ گئے اور آپکو سوکھا جگہ پر لٹایا؟ یہ آپ کے والدین کا آپ کے اوپر احسان عظیم بھی ہے، مگر میری لاکھ کوشش ہے اور خواہش ہے “آپ کا ضمیر کب اور کس طرح جاگے گا؟ مگر لاکھ کوشش اور جستجو کے باوجود مجھے وہ الفاظ ہی نہی مل رہے، کہ میں آپکے مردہ ضمیر کو جھنجوڑ کر احساس دلا سکوں، بس اتنا تو مجھے کہنے کا یہ حق ہے کہ
شائد کے تیرے دل میں اتر جائے میری بات،،،،؟؟؟؟؟