Column My Voice Columnist: Ijaz Ahmed Tahir Awan 156

سال 2022 بھی صحافت کے لئے سوگوار گزرا؟ کالم”میری آواز”

کالم نگار: اعجاز احمد طاہر اعوان

سال 2022 بھی صحافتی ناکامیوں، میدان صحافت کے درمیان رسہ کشی، جوڑ توڑ کی صحافت، سینئر صحافیوں سے جدائی کا درد، گزرنے والے سال 2022 اختتام کے آخری دنوں پر ہے، اس سال بھی سینئر صحافی ارشد شریف، جوکھیو سندھ کے صحافی اور شعبہء صحافت سے منسلک ہم سے بچھڑ گئے، جس کا کرب اور دکھ طویل عرصہ تک محسوس ہو گا، اللہ پاک ان سب کی معغفرت فرمائے
اس سال 2022 بھی صحافی برادی کے لئے یہ سال مشکلات اور ناانصافیوں اور ان کے حقوق کی جنگ میں مشکل ترین سال ہی رہا، ہم سے بچھڑنے والے صحافیوں سے دکھ اور درد کو کبھی بھی فراموش نہی کیا جا سکتا، اگر ایک جائزہ پر بغور نظر ڈالی جائے تو بخوبی اندازہ ہو گا کہ ایک صحافی کی زندگی ہمیشہ مالی مشکلات اور عدم تحفظ سے ہی گزرتی ہے اور گزر رہی ہے، میڈیا مالکان نے ہمیشہ عدم تعاون اور اپنی ذمہ داریوں سے روگردانی کا ہی ثبوت دیا ہے، ایک صحافی جو دن رات سخت موسم، حالات اور خطرات میں رہ کر اپنی صحافتی ذمہ داریوں کو بطور پروفیشنل پوری کرتا ہے، مگر ایک صحافی کو جب بھی میڈیا مالکان کی طرف سے تعاون، قانونی تحفظ اور مدد کی ضرورت پڑی انہیں تنہا اور اکیلا چھوڑ دیا جاتا ہے میڈیا مالکان کی اس بے حسی پرصحافتی برادری نالاں اور اپنے آپکو یتیم محسوس کر رہی ہے، اس وقت پاکستان کے اس وقت کوئی ایسی تنظیم نہی ہے کہ جن کی رحلت اور نامسائد حالات کے وقت دست تعاون اور مالی مشکلات سے باہر نکالا جا سکے، صد افسوس اس بے حسی پر؟ صحافی کے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد اس کے خاندان کا نہ ہی کوئی پرسان حال اور مالی مدد کے لئے سامنے آتا ہے، ضرورت اس ا مر کی ہے کہ اس شعبہ کی پیچیدگی کو مدنظر رکھتے ہوئے صحافت کی اس انڈسٹری کی طرف فوری توجہ دی جائے

اس سال بھی بہت سارے صحافیوں کو سیاسی دباو اور دھمکیوں کا سامنا رہا، مگر سال ہے ایسے عظیم صحافیوں کے کردار کو کہ نامساعد حالات کے باوجود ہو ہر قدم پر ثابت قدم رہے، انکی ملک و قوم کے لئے ان گرانقدر خدمات کو پوری قوم کی طرف سے “گریٹ سلوٹ”

آج صحافت کو سال 2022 میں ایک سنگین مسلہء “لفافہ کلچر” کا بھی درپیش ہے، ضمیر فروش ایسے صحافی ہمارے اردگرد گھوم رہے ہیں جو ہمارے لئے کالی بھیڑ بنے ہوئے ہیں اس شعبہ کو ایسے ناسور صحافیوں سے نجات دلانا وقت کی اہم ترین ضرورت بن کر رہ گیا ہے،

سال 2022 بھی دوسرے سالوں کی طرح خونی سال ہی ثابت ہوا ہے، اس شعبہ سے منسلک صحافی ہماری ٹیم کا حصہ صحافی ہ دے بچھڑ گئے ج کی جدائی کا درد ہم محسوس تو کر سکتے ہیں مگر ہم ان کے دیکھوں کا مداوا نہی کر سکتے؟ آج بھی ایسے لاتعداد صحافی ہوں گئے جن کی محنت کا صلہ اور ماہانہ تنخواہ کا معاوضہ کئی کئی ماہ گزر جانے کے باوجود نہی دیا جا رہا اور ان کا پورا خاندا انتہائی کسمپرسی کی نظر سے گزر رہا ہے، میڈیا مالکان کی طرف سے اس بے حسی کی جتنی مذمت کی جائے کم ہو گئ. سوچنا یہ ہے کہ میڈیا مالکان کی اس سردمہری کے خلاف کون پہلا قدم ثابت ہو گا؟ میڈ مالکان کوئی غریب نہی ہیں، ان کی ناانصافیوں کے خلاف پوری صحافی برادری کو اٹھنے کا وقت اب آ چکا ہے

سال 2022 بھی صحافیوں کے لئے مشلکات اور عدم تحفظ کے طور پر ہی اختتام پزیر ہو رہا ہے اور سال ختم ہونے کے قریب ترین ہے،

سوچنے کا مقام ہے کہ کیا آنے والا نیا سال 2023 صحافیوں کے لئے ایک محفوظ اور حقوق کی بحالی کا سال ثابت ہو گا؟ صحافتی برادری کے اندر اپنے حقوق کے لئے گروپ بنفئوں دے نجات حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گا؟ میڈیا مالکان کی نا انصافایوں کا ازالہ ہو سکے گا؟ صحافی اپنے حقوق اور حق کی جدوجہد میں کامیاب ہو جائیں گئے؟صحافییوں کے درمیان حسد کی جنگ کا خاتمہ کیسے ہو گا ممکن؟ کیا آج کا صحافی اپنے قلم کی حرمت کی پاسداری کرنے میں کامیاب ہو جائے گا؟ شعبہ صحافت گروپ بندیوں سے کب ہو گا پاک؟
اللہ کرے کہ آنے والا نیا سال 2023 صحافی برادری کے لئے مسائل سے نجات حاصل کرنے می کامیا ہو جائے یہ دعا بھی ہے کہ ہمارے شعبہ کے اندر اتحاد اور یکجہتی میں پختگی آ جائے، یہ سا. صحافیوں کے لئے محفوظ بھی ثابت ہو جائے، ذمہ دار صحافی ملک و قوم کا قیمتی اثاثہ کا درجہ رکھتے ہیں، دل سے اس خواہش اور دعا کے ساتھ آخری سطر,,,
“”” اللہ کرے زور قلم اور زیادہ””

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں