میری آواز،کالم نویس/اعجاز احمد طاہر اعوان 137

میری آواز،کالم نویس/اعجاز احمد طاہر اعوان

پی این پی نیوز ایچ ڈی

شہید جمہوریت بینظیر بھٹو ۔۔۔کی شہادت ایک سانحہء عظیم(یوم وفات 27 دسمبر 2007)
یہ پھول اپنی لطافت کی داد پا نہ سکا
کھلا ضرور مگر کھل کے مسکرا نہ سکا
“”بھٹو خاندان “” پاکستان کی سیاسی تاریخ کا سب سے مظلوم خاندان ہے۔ اور اس خاندان نے وطن عزیز کی سلامتی، دفاع، سالمیت، ملکی ترقی بقاء و سالمیت اور استحکام کے لیے جتنی قربانیاں دیں۔ شائد ہی دنیا کی تاریخ میں اس کی کوئی مثال موجود ہو۔ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے دشمن عناصر نے 27 دسمبر 2007 کے دن محترمہ بینظیر بھٹو کو شہید کر کے ان کے جسمانی وجود سے تو چھٹکارا حاصل کر لیا مگر انکی مقبولیت اور شہرت کو نہ مٹا سکے۔بینظیر بھٹو 21 جون 1953 کو کراچی میں پیدا ہوئیں۔ وہ آکسفورڈ یونیورسٹی یونین کی منتخب ہونے والی پہلی ایشیائی مسلمان خاتون تھیں۔ جو باقائدہ طور پر یونین کی صدر منتخب ہوئیں۔ بینظیر بھٹو شہید نے دنیائے اسلام کی پہلی۔انہوں نے خاتون وزیراعظم ہونے کا بھی اعزاز حاصل کیا 3 اپریل 1979 کو شہید بھٹو کے ساتھ اپنی آخری ملاقات کے دوران بینظیر بھٹو نے اپنے والد گرامی کے سامنے انکی زندگی کے ادھورے مشن کو جاری رکھنے اور تکمیل کے مراحل سے گزرنے کا پختہ عزم بھی کیا۔ بینظیر بھٹو شہید جلد مسلسل اور پختہ عزم اور جستجو کی تکمیل کا درخشندہ ستارہ کا درجہ بھی رکھتی تھی۔ 8 اکتوبر 2007 کو جب بینظیر بھٹو 8 سالہ جلاوطنی کے بعد واپس پاکستان آئیں تو کراچی میں ان کے جلوس پر خودکش حملہ کیا گیا۔ جس میں بینظیر بھٹو معجزانہ طور پر بچ گئیں اس دھماکے کے دوران بینظیر بھٹو کے 170 جانثار شہید ہو گئے۔ مگر بینظیر بھٹو نے انتہائی دیدہ دلیری سے بحالی جمہوریت اور استحکام پاکستان کے لئے اپنے مشن کو جاری رکھا۔ 27 دسمبر 2007 کو اسلام آباد کے لیاقت باغ میں اپنے انتخابی جلسے سے خطاب کے بعد وہ اپنے جلسہ گاہ سے واپس جانے لگیں تو ان کے جیالوں نے عبوری بازی شروع کر دی بینظیر بھٹو ان کے نعروں کے جواب کے لئے جب اپنی گاڑی میں سے “”سن روف”” سے باہر نکلیں تو دہشت گردوں نے انکو شہید کر فیا۔ یہ لمحہ پاکستان کی تاریخ کا المناک اور سیاہ ترین دن بھی تھا۔ بینظیر بھٹو نے اپنی زندگی کے آخری خطاب میں بھی اپنے ملک کو درپیش خطرات کی کھل کر نشاندھی کرتے ہوئے کہا تھا کہ آج آپ کا اور میرا ملک شدید خطرات میں ہے۔ ہم عوام کی طاقت سے انتہا پسندوں کو ضرور شکست فاش سے دوچار کریں گئے۔ بینظیر بھٹو نے ساری زندگی عوام کے حقوق کی تکمیل اور جمہوریت کی بحالی کے لئے گزاری۔ 1988 میں انہیں پاکستان اور عالم اسلام کی پہلی خاتون حکمران ہونے کا بھی اعزاز حاصل ہوا۔ ہر سال 27 دسمبر کو انکی شہادت کے موقع پر ایک پیغام بھی ابھرتا ہے کہ ہم آج تک ان کے قاتلوں کی سازش کو بےنقاب نہیں کر سکے۔ اور نہ ہی ان دہشت گردوں کو نشان عبرت بنانے میں ہی کامیاب ہو سکے ہیں؟ گڑھی خدا بخش کے خاندانی قبرستان میں محترمہ بینظیر بھٹو نیند سونے والی دختر مشرق اور سیاست کی پر عزم شخصیت کی یاد ہم سب ہر سال 27 دسمبر کو مناتے ہیں اور ہر سال یہ دن پوری قوم کو سوگوار اور افسردہ کر جاتا ہے۔

یہ پھول اپنی لطافت کی داد پا نہ سکا
کھلا ضرور مگر کھل کے مسکرا نہ سکا

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں