my voice 159

میری آواز

**** میری آواز ***
روشنیوں کا شہر کراچی،،، ٹریفک جام میں لوٹ مار اور چھینا چھانی کی وارداتوں کا سلسلہ نہ تھم سکا،
کالم۔نویس/اعجاز احمد طاہر اعوان

اس وقت کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر اور معاشی اعتبار سے سب کے لئے ایک نعمت سے کم نہی ہے، یہ اعزاز صرف “شہر کراچی” کو ہی حاصل ہے، اس وقت ایک محتاط اندازے کے مطابق (غیر تصدیق شدہ اعداد و شمار ) کراچی کی آبادی تین کروڑ نفوس پر مشتمل ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اس کی۔موجودہ آبادی میں اضافہ کا گراف بھی تیزی کی طرف گامزن بھی ہے، آبادی میں اضافہ کے ساتھ ہی اس شہر کراچی کے مسائل اسی تناسب سے اضافہ کی طرف گامزن بھی ہیں، جن میں سرفہرست شاہراہوں پر ٹریفک کے جام کا سنگین مسلہ سامنے آ رہا ہے، تمام شاہراہوں پر صبح اور خصوصا” شام دفتر اوقات کے بعد ٹریفک جام کا روزانہ کی بنیاد کا معمول بن چکا ہے، اور یہاں کے عوام ٹریفک کے
بے ہنگم نظام سے لوگ کئی کئی گھنٹے شاہراہوں پر شدید پریشانی کی حالت میں گزارنے پر بے بس اور مجبور نظر آتے ہیں، مسلہ یہی پر ختم نہی ہوتا بلکہ آگے کی طرف بڑھ رہا ہے دوران ” ٹریفک جام” شہریوں سے نقدی، موبائل اور دیگر قیمتی اشیاء کا گن پوائنٹ پر چھینا جانا بھی روز کا معمول بن چکا ہے، اور مسلہ کے حل کی طرف اگر قانون نافذ کرنے والے اداروں اور سیکورٹی کے ذمہ داران کی طرف نظر ڈالی جائے اور ان کی کاکردگی کو دیکھا جائے، تو سر شرمندگی اور ندامت سے نیچے جھک جاتا ہے، کراچی می کوئی ہی خوش قسمت ہو گا کہ جو اب تک ان لٹیروں سے بچا ہو، ایک محتاط اندازے کے مطابق شہر کراچی میں روزانہ کی بنیاد پر 3 لاکھ سے زائد چھوٹی بڑی گاڑیاں سڑکوں پر بھاگتی نظر آتی ہیں، جبکہ۔شاہراہوں کی کشادگی نہ ہونے کے برابر ہے، اس کے علاوہ کراچی کی اندرون شہر کی اہم سڑکوں کے دونوں اطراف غیر قانونی مافیا نے بھی قبضہ کیا ہوا ہے، جو قانون کی تمام دھجیاں بلا خوف خطر اڑا رہے ہیں،

کراچی میں بڑھتے ہوئے ٹریفک کے مسائل کی وجہ سے شہری بلڈ پریشر اور دیگر خطرناک امراض کا بھی تیزی کے ساتھ سامنا کر رہے ہیں، کراچی میں عوام دن دھاڑے دوران ٹریفک جام میں لٹ رہے ہیں، اور کھلے عام قانون کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں، عوام عدم تحفظ کے ماحول میں زندگی گزارنے پر مجبور ہو کر تہ گئے ہیں، اور اب تک سینکڑوں شہری دوران جام ٹریفک نقدی، قیمتی اشیاء اور موبائل دے گن پوائنٹ پر لٹ چکے ہیں، حالانکہ ہونا تو یہ چاہئے کہ ان جرسئم کے تدارک اور روک تھام کے لئے شاہراہوں پر با کثرت رونما جرائم کے لئے “خصوصی فورس” تعینات کی جائے، جو مین شاہراہوں پر دوران ٹریفک جام پر اپنی اپنی ڈیوٹی سر انجام دیں اور اس اسپیشل فورس کو بائی سائیکل اور جدید اسلحہ کی سہولسے بھی لیس کیا جائے، موٹر سائیکل پر واردستیں کرنے واکے اسلحہ سے لیس ہونے کے ساتھ ساتھ وارداتوں کے لئے پروفیشنل بھی اور تجربہ کار ہوتے ہیں، اور واردات کے دوران بھاگ جانے میں بھی ماہر ہوتے ہیں، موٹر سائیکل پر وارداتیں کرنے والے جرائم پیشی افراد کی عمریں 25 سے 30 سال کے درمیان ہوتی ہیں، ان کے زیادہ تر نشانہ وہ شہری بنتے ہیں جو دوران ٹریفک جام میں پھنسے ہوتے ہیں، نہ وہ آگے اور نہ ہی پیچھے کی طرف جا سکتے ہیں، آج کل تو ہر شخص کی جیب کے اندر نقدی اور قیمتی موبائل تو موجود ہی ہوتا ہے، اکثر وارداتوں کے دوران شہریوں سے دوران مزاحمت گولی بھی مار دی جاتی ہے، ٹریفک جام کے دوران اور پھنسے ہوئے موٹر سائیکل اور گاڑیوں میں سوار شہریوں کے پاس انکاری کا کوئی چانس بھی نہی ہوتا، اور ان کا مطالبہ ہر صورت میں پورا کرنا ہی پڑے گا، اور بے بسی کے عالم میں شہری اپنی قیمتی اشیاء سے زیادہ اپنی زندگی کو بچانے کی کوشش کرتے ہیں،

قابل غور یہ بات بھی ہے کہ ان شاہراہوں پر ہونے والی وارداتوں کے قریب ترین پولیس کے تھانے اور عملہ بھی موجود ہوتا ہے مگر صد افسوس کہ واردات کی اطلاع اور موقع واردات پر بروقت نہ آنے سے عوام اپنی موجودہ حالت پر خون کے آنسو روتے ہیں، بڑی محنت سے اور دن رات کی کوشش سے قیمتی موبائل خریدا جاتا ہے اور دوران واردات وہ ان لٹیروں کے ہاتھ لگ جاتا ہے، کبھی کبھی تو یوں محسوس ہعتا ہے کہ ان جرائم پیشی عناصر کے ساتھ 100% پولیس کا عملی ملا ہوا ہوتا ہے، اور واردات کرنے سے قبل ان پولیس والوں کو پیشگی اطلاع کر کے جاتے ہیں تاکہ وہ بر وقت کاروائی کے لئے ادھر کا رخ نہ کر سکیں، اگر دوران واردات پولیس کو ایمرجنسی مدد کے لئے 15 پر کال کیا جائے تو حسب معمول کئی کئی گھنٹوں کی تاخیر کے بعد موقع واردات پر تشریف لے آتے ہیں، اور آنے بعد اکثر پولیس والے 15 پر کال کرنے والے سے “پٹرول” اور خرچہ پانی بھی شرمندگی کے بغیر مانگتے ہیں، کیا اس محکمہ میں ایماندار اور فرض شناس اللہ سے ڈرنے والے افراد کی کمی کب تک محسوس کی جائے گئی جبکہ ان سب پولیس والوں کو ہر ماہ باقاعدگی کے ساتھ ماہانہ تنخواہ بھی حکومت وقت ادا کرتی ہے مگر اس کھ باوجود کارکردگی اور فرائض کی منصب میں نتیجہ “”صفر”” حکومت وقت جن علاقوں کے اندر با کثرت اسٹریٹ کرائمز رونما ہو رہی ہیں ان علاقوں کے “SHO” کے خلاف فوری طور پر معطل کر دیا جائے، اور غیر ذمہ داران پولیس افسران کی باقاعدہ طور پر لسٹیں تیار کی جائیں،

“””پولیس کا ہے فرض مدد آپ کی””””

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں