میری آواز
3 مئی آزادی صحافت کا عالمی دن، صحافت ریاست کا چوتھا ستون کا درجہ رکھتا ہے،،،؟
کالم نگار/اعجاز احمد طاہر اعوان
پاکستان میں جمہوریت کی بحالی اور جمہوری اداروں کے استحکام کے لئے “”صحافتی برادری “” کی جدوجہد اور اہمیت قابل ستائش ہے، ذرائع ابلاغ عامہ کو “”صحافت کو ریاست کا چوتھا ستون”” بھی کہا جاتا ہے۔ صحافتی برادری کے لئے حقوق اور ان کے جانی و مالی تحفظ کی بحالی کے لئے ترجیحی بنیادوں پر آج پھر سے ترجیحی بنیادوں پر اقدامات کی اشد ضرورت محسوس ہونے لگی ہے۔ 3 مئی کو ہر سال پاکستان سمیت دنیا بھر میں “”آزادی صحافت”” کا عالمی دن سخت پابندیوں کے باوجود منایا جاتا ہے، جمہوری معاشرے کی تشکیل۔میں صحافت کا کردار انتہائی اہمیت کا بھی حامل ہے، عصر حاضر میں میڈیا کو ریاست کا چوتھا ستون بھی مانا جاتا ہے۔ آزادی صحافت کے تحفظ کے لئے صحافتی برادری نے مل کر لازوال جانی و مالی قربانیاں بھی پیش کی ہیں اور کی جا رہی ہیں۔ اس دن کا منانے کا بنیادی مقصد آزادی صحافت کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ ایسے فوری اقدامات کرنے کی اشد ضرورت ہے جس سے آزادی صحافت کی ترقی اور آزادانہ موحول کے راستہ میں حائل درپیش تمام پابندیوں اور مشکلات کو بھی دور کرنا ہے،شعبہ صحافت کے میدان میں اور اس سے منسلک صحافیوں کی مشکلات کے ازالہ۔کے لئے بھی فوری اقدامات کی آج پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے۔ صحافیوں کی قیمتی جانوں کے ضیاع کو فوری روکنے کی بھی ضرورت کا سامنا ہے، صحافیوں کی گرانقدر خدمات کو کبھی بھی فراموش نہ کیا جائے، اقوام متحدہ کی طرف دے 3 مئی کو ہر سال “”آزادی صحافت”” کا عالمی دن منانے کا خصوصی سہتمام۔کیا جاتا ہے، جس کے تحت آزادی صحافت کے اصولوں کی موجودہ صورتحال پر پورے اعتماد کا بھی اظہار شامل ہوتا ہے۔ اور دنیا بھر میں شعبہ صحافت سے منسلک صحافیوں کے معیار زندگی کو بھی بلند اور تحفظ فراہم۔ہوتا ہے۔ صحافت کی موجودہ آزادی بھی کسی کی دی ہوئی ہرگز نہیں ہے۔ بلکہ۔یہ صحافیوں کی مسلسل جدوجہد آزادی کے ساتھ منسلک سیک مکمل آزادی کی تحریک کا بھی ملی ہعئی ہے۔ شعبہ صحافت سے جڑے صحافیوں کی محنت و کاوش کو پوری دنیا “”صحافتی کردار”” کو سلوٹ بھی پیش کرتی ہے۔ صحافیوں نے عقوبت خانوں کے اندر ماضی میں بھی ظلم و بربریت کے تشدد کو بھی خبدی۔پیشانی کے ساتھ برداشت کیا۔ ایک صحافی ہمارے معاشرے کا ایک آئینہ کی
ماند ہوتا ہے۔ صحافیوں کے حقوق اور آزادی اظہار کے لئے قانون سازی کا مطالبہ بھی گزشتہ کئی سالوں سے جاری و ساری ہے۔ اور اس کے حوالے دے بھی عملی اقدامات پر عمل بھی آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ شعبہ صحافت کو بے یار و مدد گار چھوڑ کر رکھا ہوا ہے۔ پاکستان میں شعبہ صحافت اس وقت مکمل طور پر عدم تحفظ کا شکار بھی ہے۔ شعبہ صحافت حکومت اور عوام کے درمیان ہم آہنگی کے روابط کے درمیان ایک پل کا بھی کام کرتا ہے۔ ہر دور حکومت کے اندر صحافت سے زیر عتاب میں ہی رکھا گیا یے۔ یہی بنیادی وجہ ہے کہ پاکستان کے اندر صحافت کا شعبہ اس وقت سخت مشکلات کی گردش میں پھنسا ہوا ہے، صحافیوں کو مختلف پابندیوں کا بھی آج شدید سامنا ہے۔ گزشتہ سال صحافیوں ہر 68 قاتلانہ حملوں اور خلاف ورزیوں کا ریکارڈ بلند ترین سطح پر رہا، عالمی رپورٹ کے مطابق 180 ممالک کی فہرست میں 12 کی ڈگری کی۔کمی کے ساتھ اس وقت دنیا بھر میں 145 سے 167 نمبر پر آ گیا یے، سینئر صحافی ارشد شریف کو بھی ایماندارانہ صحافت کی پاداش کے جرم میں قتل کر دیا گیا اور سینئر صحافی سمیع ابراہیم اور صابر شاکر کے خلاف بھی متعدد جھوٹے مقدمات اور ایف آئی آر درج کی گئی ہیں۔ میڈیا صحافیوں کی آزادی کھ لئے بڑا مثبت کر دار ادا کر رہا ہے۔ اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ مثبت انداز اور سنجیدگی کا استعمال کرتے ہوئے موجودہ پالیسیوں میں فوری طور پر اصلاحات لانے کی اشد ضرورت بھی ہے۔ کیونکہ اکثر عمارت کے کمزور ستون ریاست کی بنیادی وجہ بھی ہوتے ہیں۔