میری آواز 162

“””” میری آواز””””

صوبوں کے درمیان پانی کی تقسیم کا سنگین مسلہ؟.

کالم نویس/اعجاز احمد طاہر اعوان

پانی قدرت خداوندی کی طرف سے دی گئی نعمتوں میں سے ایک “عظیم نعمت” ہے، مگر اس وقت چاروں صوبوں کے اندر آبادی کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ پانی کی شدید قلت کا سامنا ہے، اور اس سنگین مسلہ پر چاروں صوبوں کے درمیان اختلافات بھی موجود ہیں، یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ صوبوں کے درمیان پانی کی تقسیم کی سنگینی کا مسلہ آغا یحیی خان کے کے دور میں “ایک یونٹ” ختم کر دینے کے نتیجے کے طور پر پیدا ہوا تھا، مگر یہ مسلہ ذوالفقار علی بھٹو اور ضیاء الحق کے دور میں بھی حل نہ ہو سکا، اس کے حل کے لئے “”انڈس ریور سسٹم اتھارٹی” کا قیام بھی عمل میں لایا گیا، جو دسمبر 1992 میں قائم کی گئی، اور اس کے لئے 5 ارکان پر مشتمل کمیٹی بھی بنائی گئی، اور 1991 میں چاروں صوبوں کے درمیان ایک معاہدہ بھی کیا گیا جس کے مطابق پنجاب میں 24 نہروں اور سندھ کے تین بیراجوں اور شمالی سرحدی صوبے کی 5 نہروں سے پانی حاصل کرنے کے حقوق مقرر کر دئے گئے، مگر اس تقسیم کے باوجود پانی منصفانہ تقسیم کے حوالے سے “اعتراضات ” ختم نہ ہو سکے.

عالمی بینک نے سال 2004 میں وفاقی حکومت کو یہ مشورہ بھی دیا تھا کہ مستقبل میں پاکستان کو پانی کے سنگین بحران سے بچانے کے لئے “انڈس ریور سسٹم اتھارٹی” “ARSA” کو موثر بنایا جائے، اور اس کو مکمل طور ہر “خود مختار” بنا دیا جائے، اس میں سیاسی مصلحت کی بجائے مفروضہ حقائق کی بنیاد پر فیصلے کئے جائیں، عالمی بینک نے “ARSA” کے حوالے سے یہ بھی الزام لگایا، کہ “ARSA” سیاسی تنظیم کی طرح کام کرتی ہے، اس معاہدہ کے مطابق پنجاب کو 51،6 % سندھ کو 41،4 % سرحد کو 5% اور بلوچستان کو صرف 2% پانی دیا جا رہا تھا، 16 مارچ 1991 کو “مشترکہ مفادات کونسل ” میں پنجاب نے اپنے حصے کا 27% پانی کم کر لیا، اور سندھ کا حصہ 1،2% بڑھا دیا گیا،

ایک حالیہ سروے کے مطابق اگر پاکستان میں “پانی” کی قلت کا سلسلہ یونہی رہا تو پاکستان بھی پانی کی قلت والے ممالک کی فہرست میں شامل ہو جائے گا، دنیا بھر کے ممالک اس وقت پانی کی قلت کا مقابلہ کرنے کے لئے مربوط منصوبہ بندی کر رہے ہیں، چین نے اس وقت پانی کی قلت کو ختم کرنے کے لئے 200 سو سے زائد نئے “ڈیم” تعمیر کئے ہیں، اور ہندوستان مختلف دریاؤں پر مزید 20 نئے ڈیم تعمیر کر رہا ہے، دوسری جانب پاکستان کے تربیلا ڈیم، منگلا اور چشمہ کے آبی ذخائر میں مٹی بھر جانے کی وجہ سے پانی جمع کرنے کی مجموعی صلاحیت 18،37 ملین ایکڑ فٹ سے کم ہو کر 13،22 ملین ایکڑ فٹ تک رہ گئی ہے، اس کے ساتھ ساتھ دیگر ممالک کی نسبت پاکستان میں پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت اور سہولت بھی میسر نہیں ہے، اور ملک کے اند نئے ڈیم بنانے کی ہر سطح پر مخالفت کا سلسلہ بھی جاری ہے،

ملک کے ماہرین “آبی ذخائر” کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر پاکستان میں دستیاب پانی کو محفوظ اور سنبھالنے کا بندوبست نہ کیا گیا، تو مذید 22،5 ملین ایکڑ اراضی پر زراعت کا آغاز ہو سکتا ہے، لیکن پانی کا ذخیرہ نہ ہونے کی وجہ سے ایک محتاط اندازے کے مطابق کم از کم 39 ملین ایکڑ فٹ پانی کوٹری بیراج سے گزرنے کے سمندر میں چلے جانا ہے، جبکہ 106 ملین ایکڑ فٹ زرعی مقاصد کے لئے استعمال ہو پاتا ہے، اس وقت پاکستان کے اندر چھوٹے بڑے ڈیموں کی تعداد صرف 50 کے لگ بھگ ہے، جبکہ ہندوستان کے اندر اس وقت 4192 سے زائد ڈیم موجود ہیں، پاکستان کے ڈیمز میں پانی ذخیرہ کرنے کی مجموعی گنجائش صرف 18 ملین ایکڑ فٹ ہے، جبکہ ہندوستان میں یہ گنجائش 205 ملین فٹ سے بھی زائد ہے، اگر کالا ڈیم کی تعمیر میں تاخیر کی گئی تو پانی کی شدید قلت کا سامنا بھی کرنا پرے گا، کالا باغ ڈیم کی تعمیر میں تاخیر کا مسلہ گزشتہ کئی سالوں میں التوا کا شکار بنا ہوا ہے، اور اس ٹیکنیکل مسلہ کو سیاسی مسلہ بنا دیا گیا ہے، اور بھی یہ کہا جا رہا ہے کہ اس ڈیم کی تعمیر سے “نوشہرہ” ڈوب جائے گا، اور اس کی مخالفت کا سلسلہ ہنوز جاری و ساری ہے، پاکستان کو بڑے بڑے ڈیم کے ساتھ چھوٹے چھوٹے نئے ڈیم کو بنانے کی اشد ضرورت ہے، اس کے علاوہ پاکستان کو کوئلے کے ذخائر کے اعتبار سے دنیا بھر میں ساتواں بڑا ملک ہے، اس قدر وسیع ذخائر کا حاصل ہونے وال ملک “پاکستان” کوئلے کے ذریعے بجلی پیدا کرنے کے لئے ٹھوس منصوبہ بندی کر سکتا ہے مگر صد افسوس کہ ملک کے نا عاقبت اندیش سیاست دانوں کو ملکی سیاست سے نجات ملے تو وہ ملک کو درپیش سنگین مسائل کے بارے سوچیں، آج کا یہ کڑوا سچ” ہم سب کے لئے،،،؟؟؟

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں